ہفتہ، 26 مئی، 2018

مسلم لیگ ن اور نواز شریف کا مستقبل علم نجوم کے آئینے میں

پارٹی مفادات کے لیے کیا شہباز شریف کوئی بڑا اور تلخ فیصلہ کرسکتے ہیں؟

سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیات کے حوالے سے جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، یقیناً ہمارے قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا، اس بات کا ہم کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ عام طور سے درست تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش کا حصول ممکن نہیں ہوتا لہٰذا علمی اندازوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور اس میں غلطی یا کسی کوتاہی کا امکان بھی رہتا ہے۔
جناب نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر رہ چکے ہیں اور اب تاحیات قائد ہیں، ان کی دستیاب تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1949 ء ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ سال پیدائش 1948 ء زیادہ درست ہے،وہ لاہور میں 00:03 am پر پیدا ہوئے،یہ وقت بھی ہم نے اندازے کے مطابق رکھا ہے،سال پیدائش 1949 ء لیا جائے تو قمر برج دلو میں نظر آتا ہے اور میاں صاحب میں قمری برج دلو والی خصوصیات نظر نہیں آتی، اسی طرح قمری منزل بھی فطرت اور زندگی کے رجحانات سے میل نہیں کھاتی البتہ 1948 ء کے مطابق قمر برج سنبلہ میں ہے اور قمری منزل چترا ہے جو فطرت اور کردار کے عین مطابق ہے، اس کے باوجود بھی نواز شریف صاحب کے زائچے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔


جناب نواز شریف کا پیدائشی برج سنبلہ (virgo) ہے،یہ ڈبل باڈی سائن کہلاتا ہے اور خاکی ہے،اس اعتبار سے مادّیت کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے،گویا یہ لوگ بہت زیادہ پریکٹیکل سوچ کے مالک ہوتے ہیں،برج سنبلہ پر سیارہ عطارد حکمران ہے،یہ تجزیاتی صلاحیت دیتا ہے،عطارد زائچے کے چوتھے گھر میں سیارہ مشتری کے ساتھ حالت قران میں ہے،مشتری اپنے ذاتی گھر میں ایک طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے اور ہمسا یوگ بنارہا ہے جو ذہانت اور دانش وری سے متعلق ہے،اگرچہ مشتری اور عطارد دونوں سیارہ شمس سے قریب ہیں لہٰذا انھیں غروب تصور کیا جاتا ہے،اسے سیارے کی کمزوری کہتے ہیں لیکن اساتذہ کے نزدیک اگر کوئی سیارہ اپنے ہی برج میں ہو یا اپنے شرف کے برج میں ہو تو اسے رعایت دی جاتی ہے،اسی طرح عطارد کا فاصلہ بھی شمس سے تقریباً 7 ڈگری ہے اور مشتری سے قران بھی مددگار حیثیت رکھتا ہے،دوسرے حیثیت ، آمدن اور فیملی سے متعلق سیارہ زہرہ تیسرے گھر میں اچھی مضبوط پوزیشن رکھتا ہے،سیارہ قمر پہلے گھر میں موجود ہے، کیتو دوسرے اور راہو آٹھویں گھرمیں ، مریخ چوتھے گھر میں جب کہ سیارہ زحل بارھویں گھر میں۔
گزشتہ دنوں اتفاق سے ملالہ یوسف زئی کا زائچہ بھی پیش کیا گیا تھا اور ان کا بھی پیدائشی برج سنبلہ تھا، ہمارے موجودہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا پیدائشی برج بھی سنبلہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ برج سنبلہ کی خوبیوں ، خامیوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے۔
برج سنبلہ کا نشان کنواری دوشیزہ ہے، عنصر خاک، یہ لوگ تغیر پذیر ہوتے ہیں، نفسیاتی ٹائپ ان کی مثبت توانائیوں میں احساس تحفظ، صفائی پسندی، اپنے معمول پر کاربند رہنا، آزردگی کی کیفیت میں دل جوئی، کسی مقصد کے لیے خود کو وقف کردینا، متحرک رہنا ، کاملیت پسند ہونا ، جزئیات پر توجہ دینا، خیال آفرینی، ملازمت میں ذمے دارانہ رویہ ، منصوبہ بندی میں احتیاط وغیرہ۔
اپنی منفی خصوصیات میں یہ لوگ حاسد، کنجوس، خائف، اعتبار نہ کرنے والے،اتنے باریک بیں کہ ہر معاملے میں کیڑے نکالنے والے،چھوٹے چھوٹے مسائل پر توانائی ضائع کرنے والے اور بڑے بڑے مسائل کو نظر انداز کرنے والے ، صرف اپنے عقیدے اور نظریات کے پابند، وہمی ، نکتہ چینی کرنے والے، اڑیل اور ضدی ہوتے ہیں۔
ان خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ان میں خدمت خلق کا جذبہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے،اس کے برعکس برج سنبلہ کا مقابل سائن برج حوت خدمت خود پر زیادہ زور دیتا ہے،اسے اپنی ذات سے باہر کچھ نظر نہیں آتا، سنبلہ افراد انسانیت کی بھلائی کے لیے بے لوث خدمات انجام دیتے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ کسی موقع پر یہ بھی کہتے ہوئے نظرآئیں گے ’’کیا اس بے ترتیبی اور گندگی کو دور کرنے کے لیے میں ہی رہ گیا ہوں جسے برج اسد نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے‘‘
معروف مدبر اور ادیب لارڈ چسٹر فیلڈ ایک سنبلہ شخصیت ہے،وہ کہتا ہے ’’اگر ہوسکتے ہیں تو دوسروں سے زیادہ عقل مند ہوں لیکن انھیں بتائیں مت کہ آپ ان سے زیادہ عقل مند ہیں‘‘
واضح رہے کہ برج سنبلہ سیارہ عطارد کی وجہ سے ذہانت اور عقل مندی کا برج ہے،یہی صورت سیارہ عطارد کے دوسرے برج جوزا کی ہے لیکن جوزا میں عنصر ہوائی ہونے کی وجہ سے بے پروائی، بے وفائی اور غیر ذمے داری کا عنصر زیادہ ہے،سنبلہ اپنے ذمے دارانہ کردار کی وجہ سے نہایت سخت حالات میں بھی مسلسل کام کرکے مثبت نتائج حاصل کرلیتا ہے۔
دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ قمر بھی اسی برج میں آخری درجات پر ہے اور چاند کی منزل چترا ہے،ڈائنامک مریخ اس منزل پر حکمران ہے،اس نچھتر کی فطرت نرم ہے،موسیقی، رقص اور ڈرامے کے لیے اسے بہتر سمجھا جاتا ہے،اپنی فطرت میں یہ غیر انسانی ہے اور اس کا بنیادی محرک ’’خواہش‘‘ ہے،اس کی حیوانی علامت شیر ہے اور سمت مغرب ہے،یہ لوگ اپنی اصل عمر کے مقابلے میں کم نظر آتے ہیں، اپنے دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں، ماہر سیاست داں غیر معمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں،ان کی وجدانی قوت بڑی اہمیت رکھتی ہے، وقت سے پہلے بہت سی باتیں جان لیتے ہیں، اس نچھتر میں پیدا ہونے والے افراد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ زیادہ کوشش کیے بغیر غیر متوقع مدد اور انعام حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کیا کہتے ہیں، لوگ ان کو متکبر سمجھنے کی غلطی کرسکتے ہیں، انھیں بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچنا سمجھنا چاہیے کیوں کہ جذبات کی رو میں منہ سے نکلنے والی کوئی خود پسندانہ بات دوسروں کو بلاوجہ پریشان یا حواس باختہ کرسکتی ہے،یہ لوگ اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان پر بھرپور اعتماد نہیں کرتے،عدم اعتماد برج سنبلہ کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔
عزیزان من! ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ ہم مزاج ، فطرت و کردار پر بہت زیادہ تفصیلی روشنی ڈال رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ عام لوگ اپنے قائدین کے بارے میں جان سکیں کہ وہ کن خوبیوں کے حامل ہیں اور کون سی کمزوریاں یا خامیاں ان کے اندر موجود ہیں، ہم اس بحث میں زیادہ نہیں پڑنا چاہتے کہ ماضی میں انھوں نے کیا کیا، اب کیا کر رہے ہیں اور آئندہ کیا کریں گے،بے شک وہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، ملک میں کروڑوں لوگ انھیں پسند کرتے ہیں بلکہ بعض ان کے دیوانے ہیں، ہم صرف علم نجوم کی روشنی میں ان کی شخصیت و کردار کے پوشیدہ پہلو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔
برج سنبلہ کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ لوگ بلا مقصد اور بے فائدہ کوئی کام نہیں کرتے،ان کا ہر انداز نپا تلا ہوتا ہے اور اپنا مستقبل انھیں بہت عزیز ہوتا ہے،مادّی برج ہونے کی وجہ سے زمینی حقائق ہمیشہ پیش نظر رہتے ہیں، ان کا نروس سسٹم بے حد حساس ہے،عطارد اور زحل کی کمزوری ان کی صحت کو متاثر کرتی ہے،حد سے زیادہ تھکن نروس بریک ڈاؤن کی طرف لے جاتی ہے،اکثر یہ لوگ مراقی بھی ہوجاتے ہیں، ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ عطارد زائچے میں غروب ہے لیکن مشتری سے قران کر رہا ہے،مشتری اپنے گھر میں ہے لیکن پھر بھی عطارد کی کمزوری بہت سے دماغی خلل پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے،جیسا کہ ماضی میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے مختار کُل بننے کے خبط میں مبتلا تھے اور یہ خبط کبھی ختم نہیں ہوا اور طویل عرصہ جلاوطنی میں گزارنے کے بعد بھی جب وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو اول تا آخر اختیارات کے زیادہ سے زیادہ حصول کی طرف ہی توجہ رہی جس کی وجہ سے کئی بار سول ملٹری تناؤ پیدا ہوا، ڈان لیکس اسی تناؤ کا شاخسانہ تھا، مقدمے کا فیصلہ خلاف آیا تو ان کی انا اس توہین کو برداشت نہ کرسکی اور وہ عدلیہ کے خلاف ہوگئے۔
برج سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد سیارہ شمس کے آگے پیچھے یعنی آس پاس ہی رہتا ہے اور سال میں کئی بار تحت الشاع اور رجعت کاشکار ہوتا ہے، سال میں ایک بار اپنے ہبوط کے برج میں بھی چلا جاتا ہے اور اس سال خاص طور پر 3 مارچ سے تقریباً 9 مئی تک برج ہبوط میں رہا ، اس دوران میں تحت الشعاع بھی ہوا ، یہ صورت حال برج سنبلہ والوں کو پورا سال پریشان کرتی ہے اور ان کا حال وہی ہوتا ہے ؂ جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں۔
عطارد کی یہ پوزیشن انھیں غیر محفوظ بناتی ہے اور خود کو محفوظ بنانے کے لیے یہ دولت جمع کرنا ضروری سمجھتے ہیں، حالاں کہ دولت زندگی کے ہر مسئلے کا حل نہیں ہے مگر یہ شعور صرف اسی صورت میں آتا ہے جب پیدائشی زائچے میں عطارد ہر طرح کی نحوست سے پاک اور طاقت ور ہو جیسا کہ ملالہ یوسف زئی کے زائچے میں ہے،اگر طالع سنبلہ ہو اور عطارد مضبوط ہو تو ایسے افراد کی شخصیت پرکشش ہوتی ہے اور وہ دل کش ہوتے ہیں،اس کے برعکس صورت حال میں فراست کی کمی ہوتی ہے،ان لوگوں کی تجزیاتی فطرت انھیں کامل اور نکتہ چیں بناتی ہے،ان سے کوئی غلطی برداشت نہیں ہوتی،بعض اوقات چڑچڑے اور ادھم مچانے والے ہوتے ہیں،ان تمام باتوں کا انحصار پیدائشی زائچے میں عطارد کی مضبوطی اور تعیناتی پر ہے۔
زائچے میں 15 جولائی 2005 ء سے سیارہ عطارد ہی کا دور اکبر جاری ہے جو 16 جولائی 2022 ء تک جاری رہے گا، اس سے پہلے جولائی 1986 ء سے سیارہ زحل کا دور اکبر جاری رہا جس میں انھوں نے اپنی زندگی میں خاصے اتار چڑھاؤ دیکھے،دو بار وزیراعظم بنے لیکن کبھی مدت پوری نہ کرسکے 1999 ء میں زحل اور مریخ کے دور میں ان کے خلاف فوج نے بغاوت کی اور انھیں سزا سنائی گئی مگر سعودی حکمران درمیان میں آئے اور ایک معاہدے کے تحت وہ سعودیہ چلے گئے۔
عطارد کا دور اکبر بہتر ثابت ہوا، انھیں لندن جانے کی اجازت ملی اور بے نظیر صاحبہ کے ساتھ انھوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے پھر وہ پاکستان آئے اور الیکشن میں خاصی نمایاں کامیابی حاصل کی،پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے،خود نواز شریف صاحب کوئی پوزیشن نہ لے سکے کیوں کہ عطارد کے دور اکبر میں 12 دسمبر 2007 ء سے کیتو کا دور اصغر جاری تھا ، کیتو زائچے کے دوسرے گھر میں ہے اور بارھویں گھر سے سیارہ زحل کی نظر اس پر ہے،زحل چھٹے گھر کا حاکم ہے لہٰذا وہ بعض تنازعات کی وجہ سے اسمبلی کا الیکشن نہ لڑسکے پھر اسی دور میں پنجاب میں گورنر راج بھی نافذ کیا گیا اور دیگر تنازعات بھی عروج پر رہے، دسمبر 2008 ء سے عطارد کے دور اکبر میں زائچے کے سب سے طاقت ور سیارے زہرہ کا دور شروع ہوا جو دوسرے گھر کا حاکم ہے اور تیسرے گھر میں قابض ہے،اس دور میں انھوں نے حکومت کو خاصا ٹف ٹائم دیا اور اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے میں کامیاب رہے،2013 ء کے الیکشن میں قمر کا دور اصغر تھا، وہ خود کو اتنا مضبوط کرچکے تھے کہ الیکشن میں کامیاب ہوکر وزیراعظم بن گئے مگر 2014 ء سے مریخ کا دور اور پھر ساتویں گھر میں قابض راہو کا دور نہایت پریشان کن رہا، راہو کے دور ہی میں پاناما کا تنازعہ سامنے آیا اور اسی دور کے بالکل آخر میں انھیں تاحیات نااہل کردیا گیا ، اب زائچے میں مشتری کا دور اصغر جاری ہے حالاں کہ اب بھی ان کے خلاف نیب عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وقت ان کے خلاف چل رہا ہے،اگرچہ دور اکبر اور دور اصغر اتنے خراب نہیں ہیں لیکن زائچے میں سیارگان کے ٹرانزٹ کی پوزیشن خاصی تشویش ناک ہے،چھٹے اختلاف و تنازعات اور فتنہ و فساد کا حاکم سیارہ زحل زائچے کے چوتھے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ بارھویں گھر کے حاکم شمس سے قران کر رہا ہے بلکہ مشتری اور زہرہ پر بھی منحوس اثر ڈال رہا ہے،یہ صورت حال قید و بند کے علاوہ جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھونے کے مترادف ہے،زحل ابھی رجعت میں ہے،مستقیم ہونے کے بعد دوبارہ ان ہی درجات سے گزرے گا تو مزید پریشانیوں کا باعث ہوگا، دوسری طرف زائچے کا سب سے منحوس سیارہ مریخ تین مئی کو پانچویں گھر میں داخل ہوا، یہاں کیتو پہلے سے موجود ہے، مریخ کے داخلے کے بعد ہی جناب نواز شریف نے ایک ایسا بیان دے دیا جس نے پورے ملک میں ہلچل مچادی ہے،پانچواں گھر شعور سے متعلق ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں درست اندازے لگالیے ہیں اور اب انھیں شاید کسی بات کا خوف نہیں رہا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ آنے والے مہینے ان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوں گے،پاکستانی سیاست میں وہ تنہا ہوچکے ہیں، ان کی پارٹی بھی انتشار کا شکار ہے،پارٹی کی صدارت بھی جناب شہباز شریف کے پاس ہے لہٰذا آنے والے الیکشن میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ اپنا مزید وقت عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزاریں۔
مسلم لیگ ن

ہمارے نزدیک کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت میں بے شک اس کے مرکزی رہنما کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے لیکن جب وہ پارٹی الیکشن میں قدم رکھتی ہے تو پھر دیگر بہت سے عوامل مدنظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان میں سرفہرست پارٹی کا زائچہ بھی ہے،قانونی اور اصولی طور پر اب نواز شریف پارٹی کے سربراہ نہیں رہے ہیں ان کی جگہ شہباز شریف نے لے لی ہے،شہباز شریف کا زائچہ ہم پہلے شائع کرچکے ہیں اور یہ بھی نشان دہی کرچکے ہیں کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک انسان ہیں اور زائچے میں پیریڈز وغیرہ میں بھی موافقت میں ہیں لیکن ٹرانزٹ کی صورت حال کسی طرح بھی بہتر نہیں ہے، البتہ اگر انتخابات میں تاخیر ہوجائے اور وہ اکتوبر کے بعد ہوں تو شہباز شریف کا زائچہ زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوگا، بہر حال فی الحال پاکستان مسلم لیگ ن کے زائچے پر نظر ڈالتے ہیں۔

ہمارے نزدیک پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت وجود میں آئی جب محمد خان جونیجو صاحب سے نواز شریف صاحب نے علیحدگی اختیار کی اور جنرل حمید گل صاحب نے آئی جے آئی بنوائی،اس جماعت کی تاریخ پیدائش 26 اگست 1988 ء ہے،وقت شام 07:17 pm لاہور۔
طالع دلو زائچے میں طلوع ہے،آٹھویں گھر کا حاکم عطارد طالع اور ساتویں گھر کو متاثر کر رہا ہے،جب کہ چوتھے گھر کا حاکم بارھویں گھر میں موجود ہے،طالع کا حاکم گیارھویں گھر میں اچھی جگہ ہے ، دوسرے گھر میں مریخ جب کہ مشتری تیسرے گھر میں زہرہ پانچویں گھر میں، شمس ساتویں اور اس کے ساتھ کیتو اور عطارد ، راہو پہلے گھر میں ہے،یہ زائچے کی سیاروی پوزیشن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک طاقت ور زائچہ ہے،مریخ ، مشتری اور شمس کے علاوہ سیارہ زہرہ بھی طاقت ور پوزیشن رکھتاہے، اگرچہ معمولی سا راہو سے متاثرہ ہے ، زائچے کے طاقت ور ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے پہلے الیکشن میں اگرچہ وفاق میں حکومت نہیں بناسکی لیکن پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی، دوسری بار وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی حکمران رہی اور تیسری بار بھی پنجاب میں برسر اقتدار آئی جب کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، چوتھی مرتبہ اس نے زیادہ طاقت حاصل کی اور وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی حکمران رہی اور سندھ میں بھی غوث علی شاہ اس کے وزیراعلیٰ تھے ، قصہ مختصر یہ کہ اس نے اپنی حریف پیپلز پارٹی کا بھرپور مقابلہ کیا ، 2008 ء کے الیکشن میں بھی یہی صورت حال رہی کہ وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں ن لیگ ، دوسری بار 2013 ء میں بھاری اکثریت سے وفاق اور پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں بھی ن لیگ کا اثرورسوخ اہم رہا، سینیٹ کے الیکشن سے پہلے تک بلوچستان میں ن لیگ کا ہی وزیراعلیٰ تھا۔
طالع برج دلو ایک انوکھا اور غیر یقینی حالات و واقعات لانے والا برج ہے،اس کا حاکم اگرچہ سیارہ زحل ہے جو استحکام اور پائیداری کے ساتھ اکثر چونکا دینے والے نتائج لاتا ہے،طالع کا حاکم گیارھویں گھرمیں ہے جسے منافع کا گھر کہا جاتا ہے لہٰذا پارٹی میں اکثریتی رجحان کاروباری ہے،کاروباری لوگ پارٹی کو پسند کرتے ہیں ، قمر برج جدی میں بارھویں گھر میں ہے اور اس کی منزل دھنشٹا ہے،کہتے ہیں کہ اس منزل میں پیدائش مالی طور پر خوش بختی لاتی ہے،دولت دھنشٹا نچھتر والوں کے پیچھے بھاگتی ہے، اس نچھتر پر سیارہ مریخ حکمران ہے لہٰذا تنازعات اور لڑائی جھگڑے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے قیام سے پہلے سیاست میں محاذ آرائی اور تنازعات کا وہ انداز نہیں تھا جو بعد میں دیکھنے میں آیا، لوگ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جھگڑے بھولے نہیں ہوں گے،پہلی مرتبہ دولت کا بے پناہ استعمال ن لیگ ہی نے شروع کیا، چھانگا مانگا یعنی ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کے حوالے سے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی اصطلاح بھی اسی دور میں سامنے آئی۔
پارٹی زائچے میں مشتری اور زحل کی ٹرانزٹ پوزیشن اچھی ہے لیکن تیسرے گھر کا حاکم مریخ بارھویں گھر میں کیتو کے ساتھ اکتوبر تک قیام کرے گا، یہ صورت حال غلط حکمت عملی اور طریقہ کار کی طرف لے جاسکتی ہے اور ایسا شاید اس لیے ہورہا ہے کہ پارٹی قائد جناب نواز شریف سے اپنی نا اہلی برداشت نہیں ہورہی اور وہ ’’میں نہیں تو کچھ نہیں‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، حالاں کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار وغیرہ کی کوشش ہے کہ محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کیا جائے،بہر حال مریخ کی پارٹی زائچے میں پوزیشن الیکشن میں غلط حکمت عملی کی نشان دہی کر رہی ہے جس کے نتائج ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
پارٹی زائچے کے مطابق اگرچہ مشتری کا دور اکبر جاری ہے لیکن 26 جنوری 2016 ء سے زائچے کے سب سے منحوس سیارے عطارد کا دور اصغر شروع ہوا جو 3 مئی 2018 ء تک جاری رہا اور یقیناً اس دور میں پارٹی کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے،اقتدار میں رہتے ہوئے بھی پارٹی کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ، پارٹی کے وزیراعظم نااہل ہوئے وغیرہ وغیرہ۔
اب کیتو کا جاری ہے جو اپریل 2019 ء تک رہے گا، کیتو زائچے میں اچھی جگہ ہے یعنی ساتویں گھر میں ہے جو شراکت اور تعلقات سے متعلق ہے،اگر پارٹی صدر جناب شہباز شریف اس نکتے پر توجہ دیتے ہوئے حکمت عملی اختیار کریں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں لیکن وقت تیزی کے ساتھ ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور صورت حال نواز شریف صاحب روز بروز بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، حد یہ کہ اب وہ ریاست کے خلاف بھی جانے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں ، کیا شہباز شریف اتنی جرأت کرسکیں گے کہ اپنے بڑے بھائی اور ان کے ہم نواؤں کو بیک جنبش قلم پارٹی سے علیحدہ کردیں، جیسا کہ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ کو علیحدہ کردیا تھا؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں