ہفتہ، 17 فروری، 2018

اے مِرے حسنِ نظر! تیِرے اعتبار پہ تُف

ایم کیو ایم میں انتشار کی وجہ اور فاروق ستار کا مستقبل
ملک بھر میں ہر طرف سیاسی محاذوں پر گرما گرمی عروج پر ہے،سینیٹ کے الیکشن قریب سے قریب تر ہورہے ہیں، سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے اور سیاست کے چیمپئن جناب آصف علی زرداری سب کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں، اپنے جلسوں میں بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں، یہ بھی اعتراف کرلیا کہ بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی ان کی ”دعاو ¿ں“کا نتیجہ ہے، ن لیگی قیادت کئی محاذوں پر معرکہ آرائی میں مصروف ہے اور لودھراں کی سیٹ جیت کر جشن منارہی ہے،عمران خان کی سیاست ٹوئٹر تک محدود ہوچکی ہے، کراچی میں ایم کیو ایم تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہے لیکن اس ماہ کی سب سے بڑی خبریں محترمہ عاصمہ جہانگیر اور جناب قاضی واجد کی وفات حسرت آیات ہے۔
عاصمہ جہانگیر صاحبہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا کہ عدالت کی پکار پر لبیک کہنا پڑا یعنی تقریباً 18 سال کی عمر میں جب کہ وہ زیرِ تعلیم تھیں انہیں اپنے والد کا مقدمہ لڑنا پڑا اور پھر اس کے بعد تو قانون اور عدالتیں ان کی زندگی کا لازمی حصہ قرار پائیں، انتقال سے دو روز پہلے بھی وہ کسی عدالت میں حاضر تھیں۔
پاکستان کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر نوبل انعام کے لیے نومینیٹ ہوئیں، اس کے علاوہ بھی انہوں نے بین الاقوامی طور پر اپنی شخصیت اور اپنے کام کو منوایا، بے شک اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے مذہبی حلقے انہیں ناپسند کرتے تھے، بہر حال اب وہ تمام دنیاوی تنازعات سے آزاد ہوکر اپنے حقیقی خالق کی بارگاہ میں پہنچ چکی ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
قاضی واجد بھی ریڈیو اور ٹی وی کے ایسے فنکاروں میں شامل ہیں جن کا کام نصف صدی پر محیط ہے،ان کا متبادل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا،وہ بلاشبہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فنکار تھے، نیک طبیعت اور شریف النفس انسان تھے ، اپنے طویل کرئر میں ان کی ذات کے حوالے سے کبھی کوئی اسکینڈل نہیں بنا، چھوٹے ب ©ڑے سب ان کا احترام کرتے تھے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
جناب فاروق ستار اور ایم کیو ایم
20 نومبر کو انہی کالموں میں ہم نے جناب فاروق ستار صاحب کا زائچہ شائع کیا تھا جس میں ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی گئی تھی اور لکھا تھا ۔
”شخصیت و کردار اور فطرت سے متعلق اہم نکات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب زائچہ ایک اچھا بزنس مین ، صنعت کار، ڈاکٹر، ڈیلر، فوجی،پولیس مین،کرمنل کورٹ کا لائر، سیلزمین، میوزیشن تو ہوسکتا ہے لیکن ملک و قوم کی رہنمائی کا فرض ادا کرنا اس کے لیے خاصا مشکل ترین کام ثابت ہوسکتا ہے“۔
ان کے حال سے متعلق زائچے کی موجودہ سیاروی پوزیشن واضح کرتے ہوئے یہ بھی عرض کیا تھا کہ 
”یہ صورت حال ڈاکٹر صاحب کے لیے ہر گز خوش کن نہیں ہے،انہیں پارٹی میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں اور سیاسی میدان میں اپنی حیثیت کو مضبوط اور نمایاں کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا رہے گا، اگر آئندہ انتخابات ستمبر 2018 ءسے پہلے ہوں تو ان کے لیے اپنی نشست برقرار رکھنا بھی مشکل ہوسکتا ہے“۔
جناب فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان تنازعات اس قدر بڑھے کہ رابطہ کمیٹی نے انہیں کنوینر کے عہدے سے ہٹادیا اور جواباً فاروق ستار صاحب نے رابطہ کمیٹی توڑ دی، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں ان کے لیے موجودہ مشکلات اور تنازعات پر قابو پانا بہت مشکل نظر آتا ہے،ان کے کرئر کا ستارہ فی الحال ”مصیبت زدہ“ ہے، ہم نے اس کی نشان دہی کی تھی کہ مشتری ستمبر 2018 ءتک خراب پوزیشن میں رہے گا اور اس دوران اگر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا تو ناکامی مقدر ہوسکتی ہے، 14 مارچ 2018 ءتک بڑا مشکل نظر آتا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کو بحال کرسکےں، اس کے بعد بھی اس کے سوا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ کسی نئے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے اپنے سیاسی کرئر کو جاری رکھیں لیکن آئندہ سیاست کے میدان میں ان کا زیادہ فعال کردار نظر نہیں آتا ، یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی کمزور پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے،کسی شاعر نے ایسے ہی مواقع کے لیے کہا ہے کلاہِ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی۔
دوسری طرف ایم کیو ایم کا سیاسی مستقبل داو ¿ پر لگا ہوا ہے،ایک ایسی سیاسی پارٹی جسے متفقہ طور پر ملک کی چوتھی بڑی پارٹی تسلیم کیا جاتا رہا ہے،اب کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے،پہلے صرف مہاجر قومی موومنٹ حقیقی اس کی حریف تھی لیکن اب 22 اگست 2016 ءکے بعد دو گروپ بن گئے یعنی لندن گروپ اور پاکستان گروپ پھر مارچ 2016 ءہی میں پاک سرزمین پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور اب ایک بار پھر پارٹی دو گروپوں میں تقسیم ہورہی ہے یعنی فاروق ستار گروپ اور عامر خان گروپ، اس کی ایسٹرولوجیکل وجوہات ہمارے پیش نظر ہیں کیوں کہ سیاسی وجوہات ہمارا موضوع نہیں ہے۔
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے فروری مارچ 2013 ءمیں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے زائچے شائع کیے تھے اور اس وقت بھی یہ اشارہ دیا تھا کہ ایم کیو ایم کو آئندہ سالوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑے گی،پارٹی میں موجود سیاسی انتشار پر قابو پانا پڑے گا، اس حوالے سے فروری 2017ءتک نہایت خراب وقت گزرا ہے جس کے نتائج اب ہمارے سامنے ہےں، بے شک اب ایم کیو ایم کے زائچے میں مناسب پیریڈ کا آغاز ہوچکا ہے مگر اس سال 14 جنوری کے بعد سے راہو کیتو کی اسٹیشنری پوزیشن سیارہ مشتری پر ہے اور واضح رہے کہ ایم کیو ایم کا طالع پیدائش برج قوس ہے اور اس کا حاکم سیارہ مشتری ہے جب کہ پیدائشی زائچے میں مشتری اپنے برج ہبوط میں ہے،اگر کسی شخص یا ملک یا کسی پارٹی کا بنیادی ستارہ کمزور ہو یا کسی اعتبار سے بھی متاثرہ ہو تو اس کی زندگی میں اُتار چڑھاو ¿ بھی آتے ہیں اور رکاوٹیں اور مشکلات بھی بہت ہوتی ہیں، مزید یہ کہ جب پیدائشی طالع کے مالک ستارے پر منحوس اثرات بھی پڑ رہے ہوں جیسا کہ اس وقت صورت حال ہے تو شدید نوعیت کی مصیبتیں اور مشکلات اسے گھیر لیتی ہیں یہی کچھ اس وقت ایم کیو ایم کے ساتھ ہورہا ہے،یہ منحوس اثرات مارچ تک جاری رہیں گے لیکن اس دوران میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی تلافی کیسے ہوگی؟یہ بڑا تلخ سوال ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ صورت حال پارٹی میں توڑ پھوڑ کے جاری عمل کو بالآخر اس مقام پر لے جائے گی جہاں سے ایک نئی پارٹی اور نئی قیادت سامنے آئے گی، گزشتہ سال ہی ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان اتحاد کی کوششیں بھی سامنے آئی تھیں اور بات زیادہ آگے نہ بڑھ سکی، ممکن ہے ایسی کوئی پیش رفت آئندہ بھی دیکھنے میں آئے، اس صورت میں پاک سرزمین پارٹی کا زائچہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہوگی، جہاں تک مصطفیٰ کمال صاحب کے زائچے کا تعلق ہے تو ہم اس کی نشان دہی کر چکے ہیں کہ وہ زیادہ مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں اور جناب فاروق ستار کے مقابلے میں بہتر انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں، اگر دونوں پارٹیوں میں اتحاد ہوجاتا ہے تو آنے والے الیکشن کے لیے ایک نیک شگون ہوگا، چلتے چلتے کسی شاعر کے یہ چند شعر آپ کی نذر 
دلِ تباہ کو تجھ سے بڑی شکایت ہے
اے مِرے حسنِ نظر! تِیرے اعتبار پہ تُف
مِری گلی میں اندھیرا ہے کتنے برسوں سے
امیرِ شہر! تِرے عہدِ اقتدار پہ تُف
جادو نگری
بھارت کی حد تک تو یہ بات دُرست ہوسکتی ہے کہ اُسے جادو نگری کا نام دیا جائے کیوں کہ ہندو مذہب میں اس قدر ٹونے ٹوٹکے اور چُھوا چھکّا ہے کہ خدا کی پناہ لیکن پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے اور اکثریت مسلمانوں کی ہے،اسے بھی ہم نے جادو نگری بنارکھا ہے،بھارت میں پنڈتوں ، جوگیوں اور سادھوو ¿ں کا زور ہے، ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے جب کہ پاکستان میں نام نہاد عاملوں، مولویوں، پیروں اور فقیروں کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے،عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا بڑے بڑے رہنمایان قوم تک ان پیروں فقیروں کے مرید ہیں اور ان سے رہنمائی چاہتے ہیں، آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایسی ویڈیوز آپ کو یوٹیوب پر مل جائیں گی جس میں وہ کسی پیر صاحب یا اللہ والے بزرگ کے سامنے باادب بیٹھی نظر آئیں گی، ان کے شوہرِ نام دار جناب آصف علی زرداری نے تو اپنے دور صدارت میں ایک فل ٹائم پیر صاحب کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، یہی صورت حال میاں نواز شریف یا اور دیگر سیاسی شخصیات کے بارے میں بھی نظرآتی ہے،گزشتہ دنوں آکسفورڈ ہی کے تعلیم یافتہ جناب عمران خان کی ایک پیرنی صاحبہ کے قصے بھی سننے کو ملے، اللہ بس باقی ہوس۔
اندازہ لگائیے عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟ ہم یہ تماشے روزانہ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں اور آج سے نہیں برسوں سے اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ تھوڑا سا بھی کامن سینس استعمال نہیں کرتے، خصوصاً ہماری خواتین، آنکھ بند کرکے ایسی کسی بات پر یقین کرلیتی ہیں جس کا تعلق جادو، ٹونے ، آسیب و جنات سے ہو۔
آج ایک خاتون نے بیرون ملک سے فون کیا ہے اور کہا کہ ان کے گھر پر جادوئی اثرات ہیں، کسی نے بندش کرادی ہے،دشمن ان کے خون کے پیاسے ہیں، ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ جادوئی اثرات ہیں یا کسی نے کوئی بندش کرائی ہے اور آپ کے دشمن کون ہیں؟
جواباً انہوں نے بتایا کہ تین روز سے روزانہ گھر کے دروازے پر صبح کلیجی اور کچھ دوسری چیزیں کوئی رکھ جاتا ہے اور انہیں یہ بات اس دودھ والے نے بتائی جو گھر پر دودھ دینے آتا ہے اور اس کا کہنا یہ ہے کہ باجی! آپ کیا کوئی دشمن آپ کے خلاف کالا جادو کر رہا ہے۔
ہم نے بلاکسی تردّد کے ان سے کہا کہ آپ کا دودھ والا ہی اصل مجرم ہے، وہی آپ کے دروازے پر یہ چیزیں رکھتا ہے اور پھر آپ کو دکھاتا ہے تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور ہم سے بحث کرنے لگیں کہ آپ اتنے یقین سے اس بے چارے لڑکے پر اتنا بڑا الزام کیسے لگاسکتے ہیں؟ہم نے کہا کہ بالکل اسی طرح جیسے اس لڑکے کے الزام پر آپ نے بلاکسی تحقیق کے یقین کرلیا ہے،مزید ہم نے کہا کہ ہم تو یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ وہ لڑکا اس معاملے میں آپ کی مدد کے لیے بھی تیار ہوچکا ہے اور آپ کو اپنے جاننے والے کسی عامل کے ذریعے آپ کے دشمنوں سے نجات دلانے کی کوشش کا وعدہ کرچکا ہے۔
ہماری بات سن کر چند لمحے کے لیے وہ سناٹے میں آگئیں، فون پر خاموشی چھاگئی، آخر ہم نے دوبارہ ہیلو کہا تو وہ بولیں، یہ تو آپ نے ہمیں حیران کردیا، کیا آپ کے پاس کوئی مو ¿کل ہے، یا ہمزاد ہے جس نے آپ کو یہ سب بتادیا ہے؟ہمارا جواب انکار میں تھا، ہم نے انہیں سمجھانے کی کافی کوشش کی اور ان سے یہ بھی کہا کہ ایک دیار غیر میں کون آپ کا دشمن ہوسکتا ہے تو اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ یہاں تو نہیں لیکن پاکستان میں میرے سسرال والے اور خاص طور پر میری ساس میری دشمن ہے، ہم نے عرض کیا کہ آپ کی ساس کے پاس شاید بہت دولت ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں یہ تمام انتظامات کر رہی ہیں کہ روزانہ آپ کے گھر کے دروازے پر کوئی کلیجی رکھ جایا کرے، قصہ مختصر یہ کہ اسی نوعیت کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں، دراصل ان کی بات سن کر ہمیں ایک بہت پرانا ایسا ہی واقعہ یاد آگیا تھا۔
کراچی کی ایک خاتون کو ایک انڈہ ڈبل روٹی گلیوں میں بیچنے والے نے اسی طرح بے وقوف بنایا تھا اور ان سے خاصی بھاری رقم وصول کی تھی لہٰذا ہم نے پورے اعتماد سے ہوا میں تیر چلادیا جو اتفاق سے نشانے پہ لگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں