ہفتہ، 6 جنوری، 2018

بڑھی ہوئی حساسیت سے جنم لینے والے امراض اور ان کا علاج

پیشہ ور معالجین اس حوالے سے جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے 
ایران میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں، دسمبر کے آغاز پر ہی ہم نے دنیا کے چار ممالک امریکا ، ایران، اسرائیل اور چین کے زائچوں پر سیاروی گردش کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کی تھیں اور نشان دہی کی تھی کہ ایران کو مارچ تک نئے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے،یہ صورت حال اب ہمارے سامنے ہے ، ایران کا پیدائشی برج سرطان ہے اور چوتھے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ ہے،زائچے کا چوتھا گھر داخلی معاملات اور عوامی دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کی نشان دہی کرتا ہے،سیارہ زہرہ گزشتہ تقریباً نومبر سے غروب حالت میں ہے اور 20 فروری تک غروب رہے گا، مزید یہ کہ سیارہ مشتری زائچے کے چوتھے گھر میں حرکت کرتے ہوئے حساس پوائنٹ پر آگیا ہے، سیارہ زحل جو زائچے کا دوسرا سب سے منحوس سیارہ ہے وہ چھٹے گھر میں رہتے ہوئے پیدائشی زہرہ پر نحس اثر ڈال رہا ہے جو پہلے ہی آٹھویں گھر میں ہے،یہ صورت حال عوامی اضطراب، بے چینی کو ظاہر کرتی ہے،موجودہ احتجاج آئندہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے، صورت حال کسی خانہ جنگی کی طرف جاسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت اور حکومت سے متعلق اعلیٰ شخصیات کو شدید دباو ¿ کے بعد اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
زائچے کی پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ صورت حال اچانک نہیں پیدا ہوئی،اس کے پیچھے حکومت کی بعض غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کی دشمن قوتیں موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرےں، غیر ملکی ہاتھ اس سارے کھیل میں موجود ہے،ایران کی اعلیٰ قیادت کو بہت سوچ سمجھ کر اور بڑی تحمل مزاجی کے ساتھ ساری صورت حال کو کنٹرول کرنا ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
(گزشتہ سے پیوستہ)
چوتھی وجہ جو کسی بھی عمر میں پیش آسکتی ہے وہ کسی طویل بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے، طویل عرصہ کسی بیماری کا شکار رہنے کے سبب انسان جسمانی اور اعصابی طور پر کمزور ہوکر بے حد حساس ہوجاتا ہے، بیماری سے نجات کے بعد اگر جسمانی اور اعصابی توانائی کے لیے معقول خوراک، ورزشیں اور دوائیں نہ استعمال کی جائیں تو یہ کمزوریاں نہ صرف حساسیت کو بڑھا دیتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اس میں پختگی بھی آجاتی ہے، ایسی بیماریوں میں سرفہرست ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، نمونیا، دمہ، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، خواتین میں ماہانہ نظام کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض، فالج، مرگی، اور یرقان وغیرہ ہیں، مزید طرفہ تماشہ یہ ہوتا ہے کہ ان تمام بیماریوں کا علاج عموماً ایلوپیتھک طریقہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے، جو درحقیقت ایک مکمل علاج ہی نہیں ہے، نتیجے کے طور پر یہ بیماریاں مصنوعی طریقے سے جسم کے اندر دبا دی جاتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں اور وقتاً فوقتاً دوبارہ ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں، ان بیماریوں کے زہریلے مادے جسم میں دفن ہونے کے بعد اندر ہی اندر انسان کو گھن کی طرح کھانا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مختلف نت نئی بیماریوں کا شکار ہوتا رہتا ہے، جن کا علاج بھی وہ کبھی مکمل طور پر نہیں کرا پاتا کیونکہ جس انداز میں ہمارے ہاں ایلوپیتھک علاج مروج ہے اس میں اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان زیادہ دن اس کے اخراجات برداشت کرے بلکہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی تو زیادہ دن کیا، چند دن بھی ایلوپیتھک علاج کے اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی، نتیجے کے طور پر بڑے بڑے خطرناک امراض ایک بار جسم و جاں پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد ہمیشہ کے لیے قیام پذیر ہوجاتے ہیں، طب و صحت کے حقیقی اصولوں سے ناواقف اکثریت بے صبرے پن اور جلد بازی میں ان کا عارضی علاج عمر بھر کراتی رہتی ہے، مگر ان سے مکمل نجات نہیں مل پاتی بلکہ اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ کسی کہنہ یا گہرے مرض کے علاج کے لیے اگر کوئی مخلص ڈاکٹر یا حکیم کوشش بھی کرنا چاہے تو مریض اس سے تعاون نہیں کرتا کیونکہ نہ تو اس کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ فالتو پیسہ کہ وہ طویل عرصے کے لیے خود کو کسی ایسے علاج کے لیے وقف کرے اور اس دوران میں مرض کے اتار چڑھا ¶ کی پریشانیاں مول لے۔
ہمارے ملک میں ایلوپیتھک طریقہ علاج کی شدید یلغار کے بعد جب طب یونانی کا زوال شروع ہوا (طب یونانی کے زوال سے مراد اعلیٰ درجے کے حکیموں اور طبیبوں کی کمی اور جعلی و نیم حکیموں کی زیادتی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طب یونانی کی اہمیت افادیت ختم ہوگئی ہے) تو ہم نے نزلے جیسے مرض کو بھی لوگوں میں دائمی طور پر برسوں پروان چڑھتے اور پھر سینے، حلق، ناک، کان، آنکھ یا دماغ کی کسی مہلک بیماری میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے، یہی صورت حال دیگر تمام امراض کی بھی مشاہدے میں آتی ہے، الغرض مختلف بیماریوں میں پھنس کر جب انسان جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے تو اس کمزوری کی وجہ سے اس کے اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں، اعصاب کا متاثر ہونا حساسیت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
پانچویں وجہ اقتصادی مسائل میں طویل عرصے الجھ کر ناگوار ماحول میں زندگی بسر کرنا اور عمر کا آخری حصہ ہے، جب نہ جسم میں زائد توانائیاں ہوتی ہیں اور نہ اعصاب میں قوت۔ عمر کا یہ زمانہ بھی حساسیت میں اضافہ لاتا ہے، حساسیت کے اسباب پر فی الحال گفتگو یہیں ختم کرتے ہوئے آئندہ ہفتے تک کے لیے اجازت دیجیے۔
ایک اہم معاملے میں غفلت کا رجحان اور اس کے نتائج بد
حساسیت کا موضوع خاصی طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض قارئین پر اس کی طوالت گراں گزر رہی ہو۔ مگر ہمارے نزدیک یہ ایک نہایت اہم اور ہمہ جہت موضوع ہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان درحقیقت احساسات اور جذبات سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر انسان صرف گوشت و پوست اور ہڈیوں کا ایک پتلا ہی رہ جائے گا۔ یہ احساسات اور جذبات ہی تو ہیں کہ جو اسے ہر دم مصروف عمل اور سرگرم رکھتے ہیں مگر جب یہی احساسات اور جذبات کسی بھی اندرونی یا بیرونی دبا ¶ کے تحت ابتری اور انتشار کا شکار ہوتے ہیں تو انسان نت نئی جسمانی، نفسیاتی یا روحانی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔
گزشتہ کالموں میں انسانی جذبات و احساسات کے ایسے ہی پہلو ¶ں کا جائزہ لیا گیا تھا اور یہ ایک بے حد مختصر جائزہ تھا۔ اس سے پہلے خوف کا موضوع بھی انسان کے احساسات ہی کے ذیل میں تھا اور شاید آئندہ بھی احساسات کا یہ معاملہ وقتاً فوقتاً زیر بحث آتا رہے گا۔ اس موضوع سے فرار ممکن نہیں ہے۔ 
لیکن درحقیقت بڑھی ہوئی حساسیت ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہسٹریا، براق، مالیخولیا، مرگی، جنون، خبط، شیزو فرینیا وغیرہ انشا اللہ بہت جلد ان سب حوالوں سے گفتگو کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ ہمارے بہت سے پڑھنے والوں کی فرمائش بھی ہے۔
اس ہفتے ہم ایک خط کے کچھ اقتباسات اور جوابات پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی ہم پر ایک قرض ہے۔ اور ہمارے پیش نظر خط لکھنے والی کی یہ مجبوری بھی ہے کہ وہ جوابی لفافہ نہیں بھیج سکتیں۔ اور براہ راست جواب منگوانے سے معذور ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک اور خط ان کالموں میں شایع ہوچکا ہے۔
ش۔ الف، شیر شاہ کراچی سے لکھتی ہیں ”میں بالکل خیریت سے ہوں۔ آپ کی خیریت رب العزت سے نیک مطلوب ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ مجھے تقریباً تین ماہ سے دورہ نہیں پڑا۔ امید ہے کہ آئندہ کبھی نہیں پڑے گا۔ یہ فائدہ مجھے آپ کی تجویز کردہ مشق سے ہوا ہے۔ اب مجھ میں قوت ارادی بہت بڑھ گئی ہے۔ صبر و تحمل میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اور میرے کاندھے کا درد بھی بالکل ختم ہوگیا ہے۔ گلا بھی بہت بہتر ہو رہا ہے۔ ہاں سر میں درد بدستور جاری ہے۔ ایک موضوع پر ذرا تفصیل سے بتائیں۔ چڑیلوں کے بارے میں۔ یہ کس خاندان سے ہیں اور ان سے کیسے بچیں۔ یہ کیوں تنگ کرتی ہیں۔ کیا چڑیلوں کا تعلق جنوں کے خاندان سے ہے؟ ہمارے گھر کے سامنے ایک نالہ ہے اس طرف گھر بھی بنے ہوئے ہیں جس میں لوگ رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان گھروں میں سے ایک گھر میں چڑیل پیدا ہوئی تھی۔ گھر والوں نے اسے نالے میں دفن کردیا۔ یہ بات آج سے دس بارہ سال قبل کی ہے۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں چڑیلوں کا اثر ہے۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہم ہے۔ میں ایک خواب مسلسل دیکھ رہی ہوں جس کی تفصیل لکھ رہی ہوں۔ آپ اس کے بارے میں اپنی رائے دیں۔ اس کے علاوہ مجھے تنفس نور والیمشق بھی چاہیے۔ ورنہ پھر میں جامنی رنگ والی مشق شروع کردوں گی۔ میں نے آپ سے متبادل طرز تنفسکی مشق کی اجازت بھی مانگی تھی۔ مگر اس میں، میں روزانہ رات کو نہا نہیں سکوں گی، کیا صرف وضو سے کام نہیں چل سکتا۔ مجھے مشق کرتے ہوئے تقریباً 6 سال ہونے کو ہیں، مشق کرتے وقت گہرے گہرے سانس، کسی کے آہں بھرنے اور چلنے کی آواز آئی تھی، اب نہیں آتی، خوشبو گلان کے پھولوں کی مسلسل آرہی تھی، میرے جسم سے بھی آتی ہے، مشق کرتے وقت سر میں شدید درد ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، جسم بے جان لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں کاغذ ہوں اور ابھی اڑ جاو ¿ں گی، تصور بالکل صاف اور واضح قائم ہوجاتا ہے، اکثر وضو کرتے وقت یا صبح جاگتے وقت میرے پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے، جو وضو کرتے اور نماز پڑھتے وقت بھی رہتا ہے لیکن جب مشق شروع کرتی ہوں تو جیسے ہی سانس کا عمل دو تین بار کتی ہوں درد فوراً غائب ہوجاتا ہے، ایک اور نئی بات یہ پیدا ہوئی ہے کہ جب دروازے پر کھٹکا ہوتا ہے تو مجھے اندازہ ہوجاتا ہے، دروازہ کھٹکانے والے کی عمر کیا ہوگی؟ اور وہ بچہ ہوگا یا بڑا یعنی لڑکی یا لڑکا اور عورت یا آدمی ؟ پہلے کبھی ایسا عجیب معاملہ نہیں ہوتا تھا“۔
عزیزم ش، الف، خوشی ہوئی کہ آپ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے، آپ کو سانس کی مشق کے ساتھ اپنے جسمانی علاج پر بھی توجہ دینی چاہیے، آپ نے اپنے طویل خط میں کبھی بھی اپنی جسمانی تکالیف کے حوالے سے اپنی کسی خاص بیماری کا تذکرہ نہیں کیا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسی صورتوں میں کچھ جسمانی بیماریاں بھی اپنا مخصوص کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں، خصوصاً خواتین میں اور خاص طور پر نوجوان کنواری لڑکیوں کے بعض پیچیدہ امراض میں ان کے ماہانہ نظام کی خرابیوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور بدقسمتی سے اس سلسلے میں ان کی اپنی معلومات نہایت ناقص یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لہٰذا اس ناواقفیت کی بنیاد پر یہ مسائل مزید پیچیدہ اور اکثر اوقات تو نہایت بھیانک صورت اختیار کرجاتے ہیں، فطری شرم و حیا کی وجہ سے وہ اپنی ایسی تکالیف کا گھر والوں کے سامنے بھی اظہار نہیں کرپاتیں یا پھر اکثر گھرانوں میں گھر کے بڑے خصوصاً مائیں بھی ان خرابیوں کا مکمل شعور نہ ہونے کی وجہ سے معقول علاج معالجے پر توجہ نہیں دیتیں، نتیجے کے طور پر نت نئی پیچیدہ قسم کی بیماریاں اور مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور لڑکی کی شادی کے بعد تک مسئلہ بنے رہتے ہیں ، یاد رہے کہ اکثر بے اولادی کے کیسوں میں بھی برسوں پرانا یہی مسئلہ اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے اور ہسٹریا، جن بھوت، ماورائی اثرات، مرگی، عراق، جنونی دورے، شدید غصہ اور چڑچڑاپن ، شدید حساسیت جیسی بیماریاں بھی ماہانہ نظام کی خرابیوں کے باعث جنم لیتی ہیں، الغرض یوں سمجھ لیں کہ ہر عورت خواہ وہ کسی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہوں، اس کی مکمل ذہنی ، روحانی اور جسمانی صحت مندی کا راز اس سسٹم کی مکمل صحت مندی سے مشروط ہے، عمر کے آخری حصے یعنی تقریباً پینتالیس سال کی عمر کے بعد ”سن یاس“ کا زمانہ شروع ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا نازک وقت ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت یہ نظام جسمانی اختتام پذیر ہورہا ہوتا ہے یعنی عورت کی زرخیزی ختم ہورہی ہوتی ہے، اس وقت بھی اگر معقول احتیاط اور علاج معالجہ نہ کیا جائے تو ایسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں جو قبر تک ساتھ جاتی ہیں لیکن وہ وقت اگر معقول احتیاط کے ساتھ گزار لیا جائے تو عورت مزید صحت مند و توانا ہوجاتی ہے اور اسے کوئی مہلک بیماری لاحق ہونے کا خطرہ بہت کم ہوجاتا ہے۔
بات ہی بات میں گفتگو کا رخ اس احساس اور نازک مسئلے کی طرف مڑ گیا لیکن درحقیقت یہ کتنا اہم مسئلہ ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس سے دوچار ہوتے ہیں لہٰذا ہم اپنی تمام بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملے کو کبھی معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں اور فطری شرم و حیا، معاشرتی رسم و روایات، گھریلو جاہلانہ ماحول کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کے معقول علاج پر فوری توجہ دیا کریں، ایلو پیتھک علاج ہمارے ملک میں اس حوالے سے بھی ناکام اور سخت نقصان دہ ثابت ہوا ہے بلکہ اب تک کا ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے معقول دوائیں ہی نہیں ہیں، اکثر ویلوپیتھک ڈاکٹر صاحبان مجبوراً اس معاملے میں بھی ایک مشہور ہومیو پیتھک دوا کا سہارا لیتے ہیں جو پہلے امریکا سے اور اب چائنا سے بھی آرہی ہے یعنی ”الیٹرس کارڈئیل“ اس دوا کا بنیادی جڑ ہومیو پیتھک دوا الیٹرس فیری نوسا ہے لہٰذا ہمارے نزدیک طب یونانی کے بعد صرف ہومیو پیتھک علاج ہی ان معاملات میں مو ¿ثر اور معتبر ہے۔
عزیز بیٹی! ش، الف، آپ کے لیے چند دوائیں ہم تجویز کر رہے ہیں ، اگر استعمال کرسکو تو ضرور کرلینا کیوں کہ اپنے جو حالات تم لکھ چکی ہو ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم شاید اپنے لیے اگنیشیا 200 ہے، یہ دوا پندرہ دن میں ایک مرتبہ صرف ایک خوراک استعمال کریں، دوسری دوا کا نام نیٹرم میور 30 ہے، یہ دوا دن میں تین مرتبہ روزانہ تقریباً پندرہ دن تک استعمال کریں، اس کے علاوہ بائیو کیمک سالٹ فائیو فاسس بھی دن میں تین مرتبہ استعمال کریں، یہ آپ کو جرمنی شعابے یا فرانس کی کسی کمپنی کے مل جائیں گے، جرمنی شعابے والے اسے بایوپلاسین 24 نمبر کے نام سے بناتے ہیں، جس طرح بچوں کے دانتوں وغیرہ کے لیے 21 نمبر مشہور ہے، اسی طرح یہ 24 نمبر مشہور ہے اور جنرل ٹانک کا کام کرتی ہے، اب آئیے آپ اپنے دیگر سوالوں کی طرف۔
”مشق تنفس نور“ فی الحال دوبارہ شائع نہیں کی جاسکتی، آپ پہلی مشق اور مراقبہ بدستور جاری رکھیں، متبادل طرز تنفس کی مشق آپ کے پاس موجود ہے، وہ آپ شروع کرسکتی ہیں، ہماری طرف سے اجازت ہے مگر ابتدا صرف تین چکر سے کریں، اگر اس پر بھی سر کا درد بڑھ جائے یا کوئی اور پریشانی ہونے لگے تو ہمیں اطلاع دیں، خوراک میں سبزیاں اور دالیں وغیرہ زیادہ استعمال کریں لیکن ماش کی دال سے پرہیز کریں، غسل کرنے کی شرط متبادل طرز تنفس کی مشق میں نہیں تھی، بہر حال جس مشق میں تھی اس میں بھی نہایت ضروری نہیں ہے، چڑیلوں کی حقیقت آئندہ کالموں میں آجائے گی جب جنات کا موضوع آئے گا، آپ نے جو واقعہ لکھا ہے وہ محض افواہ معلوم ہوتا ہے، آپ کے خوابوں میں پانی کا کثرت سے نظر آنا ایک خاص نفسیاتی بیماری کی علامت ہے، مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنی جنسی خواہشات میں نا آسودہ ہوتے ہیں، ان کو خواب میں پانی بہت نظر آتا ہے، انتہائی مذہبی گھرانوں میں جہاں جنس کے موضوع کو گناہ اور جرم خیال کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ایک لاشعوری خوف ذہن مسلط کرلیا جاتا ہے ، اس قسم کی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں جس کی انتہائی صورت ہسٹیریا کا دورہ بھی ہوسکتی ہے، امید ہے کہ فی الحال آپ کے ضروری سوالوں کا جواب کافی و شافی مل گیا ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں