ہفتہ، 3 جون، 2017

آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مِرے آگے


وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کے درمیان جاری محاذ آرائی کا تماشا
مئی جون کے جلتے سلگتے موسم میں سیاسی گرم بازاری بھی عروج پر ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں، ہمارے دو سیاسی قائدین کی باہمی محاذ آرائی ہے یعنی عمران خان اور وزیراعظم نواز شریف صاحب جو ابتدا ہی سے ایک دوسرے کے حریف کے طور پر سامنے آئے تھے ، اپنی اس پوزیشن کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، عمران خان کی کوششوں سے پانامہ لیکس کا مقدمہ عدالت عالیہ تک پہنچ گیا جس کا ایک فیصلہ آچکا ہے اور دوسرا شاید جولائی تک متوقع ہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے تحقیق و تفتیش کا کام ایک جے آئی ٹی کے سپرد کردیا ہے جسے دو ماہ کے اندر سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے،جے آئی ٹی مصروف عمل ہے اور اس طرح کے ن لیگی رہنما سخت برہم ہیں، جے آئی ٹی کے دو ممبران پر سخت اعتراضات بھی کیے گئے جو سپریم کورٹ نے مسترد کردیے لیکن تازہ ترین خبر کے مطابق جو کچھ سینیٹر نہال ہاشمی نے کیا، اس پر خلق خدا حیرت زدہ ہے،اگرچہ ان کے شدید دھمکی آمیز بیان کے بعد ن لیگ نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی ہے لیکن باشعور طبقہ عدم اطمینان کا شکار ہے،وہ نہال ہاشمی جیسے سینئر ایڈوکیٹ سے ایسے کسی احمقانہ بلکہ مجنونانہ اندازِ بیان کی توقع نہیں رکھتا تھا، آخر اچانک نہال ہاشمی کو کیا ہوا تھا؟ ممکن ہے اس سوال کا حقیقی جواب نہ مل سکے یا شاید برسوں بعد کبھی ملے۔
دوسری طرف ن لیگ نے بھی اب جارحانہ رنگ ڈھنگ اپنالیے ہیں اور عمران خان کو جوابی طور پر عدالت اور الیکشن کمیشن میں کھینچ لیا ہے،ان کی کوشش ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دیا جائے،اس وقت پاکستانی سیاست میں یہی دو موضوع گرماگرمی کا باعث ہےں۔
ہم اپنے گزشتہ کالموں میں زائچہ ءپاکستان اور زائچہ ءحلف جناب وزیراعظم کی روشنی میں یہ عرض کرچکے ہیں کہ جون تا ستمبر ایسا وقت چل رہا ہے جس میں پاکستان کے لیے بھی مشکل حالات کی نشان دہی ہوتی ہے اور وزیراعظم کے لیے بھی،دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہیں جن کا طالع پیدائش برج میزان ہے، وہ بھی ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی مشکلات وزیراعظم کے مقابلے میں بہت کم ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ اب پاکستانی سیاست میں ایک مقبول لیڈر بن چکے ہیں، ان کی جماعت کے پاس اسٹریٹ پاور بھی موجود ہے،تقریباً دونوں سیاست دانوں عمران خان اور جناب نواز شریف کو نا اہلی کے مقدمات کا سامنا ہے،دونوں ملک کے مقبول اور طاقت ور سیاست داں ہیں، نواز شریف وزیراعظم کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہیں، حکومت ان کی ہے اس کے برعکس عمران خان فی الحال محض ایک اپوزیشن لیڈر ہیں، نا اہلی کی صورت میں زیادہ نقصان نواز شریف صاحب کا ہوسکتا ہے، عمران خان کی نا اہلی کو شاید زیادہ اہمیت نہ دی جائے، دونوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ نواز شریف صاحب گزشتہ 25,30 سال سے سیاست میں ہیں اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، ان پر کرپشن کے الزامات ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کی موجودہ بے پناہ دولت میں اضافہ اسی عرصے میں ہوا ہے جب وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے، اس کے برعکس عمران خان کبھی ملک کے کسی اعلیٰ عہدے پر نہیں رہے لہٰذا کرپشن کا ان پر کوئی الزام نہیں ہے،البتہ غلطیاں یا کوتاہیاں ان کے گلے پڑ گئی ہیں جسے عوام زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دونوں قائدین کی باہمی محاذ آرائی مستقبل میں کیا رنگ لائے گی؟ اس سوال کا جواب دینے کی ہم کوئی ضرورت نہیں سمجھتے، اہل نظر جانتے ہیں کہ سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں عارضی ہوتی ہیں،جیسا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا معاملہ ہمارے سامنے ہے،وزیراعظم نواز شریف کے زائچہ ءحلف اور پاکستان کے زائچے کی روشنی میں ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ وہ ایک نہایت ”بدترین“ وقت سے گزر رہے ہیں، بقول شاعر آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے۔
عمران خان کے لیے مسائل و مشکلات فی الحال ضرور ہیں لیکن وہ اس مشکل دور سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے،ان کے زائچے میں دور اکبر سیارہ مشتری کا جاری ہے جس کی ابتدا 27 جنوری 2015 ءسے ہوئی تھی، مشتری ان کے زائچے کا اہم ترین اور خوش قسمتی لانے والا سیارہ ہے،مشتری کا طویل دور 16 سال کا ہوتا ہے گویا یہ دور 28 اپریل 2031 ءتک جاری رہے گا۔
اگر دور اکبر کسی سعد سیارے کا ہو اور وہ سیارہ زائچے میں بھی کسی اچھے گھر میں تعینات ہو تو دور اصغر کی خرابیوں میں زیادہ شدت پیدا نہیں ہوتی، عمران خان کے زائچے میں دور اصغر سیارہ زحل کا جاری ہے،یہ بھی اگرچہ زائچے کا سعد ترین سیارہ ہے لیکن زائچے میں بارھویں گھر میں اور زائچے کے منحوس ترین سیارے عطارد سے متاثر ہونے کی وجہ سے پریشانیاں ، الجھنیں، سازشیں، نقصانات اور مستقبل کے خوف ظاہر کر رہا ہے،عمران خان کو چاہیے کہ اس دور میں نہایت پابندی سے ہفتہ اور بدھ کے روز صدقات دیا کریں۔
زحل کا دور اصغر 17 مارچ 2017 ءسے شروع ہوا ہے اور 22 ستمبر 2019 ءتک جاری رہے گا، اس عرصے میں کسی نئے الیکشن میں حصہ لینے کا امکان موجود ہے،بے شک زحل کی کمزوری اور خرابیاں انہیں پریشان کرتی رہیں گی، اس حوالے سے ان کے مخالفین آخری حد تک جاسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئندہ الیکشن میں ان کی کامیابی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کے وزیراعظم بننے کی پیش گوئی بھی کی جاسکتی ہے،بشرط یہ کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں، بہت زیادہ خوش امیدی سے دور رہیں جو ان کے زائچے کا ایک کمزور پہلو ہے، آنکھیں بند کرکے اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر اندھا اعتماد نہ کریں۔
وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کے زائچوں سے قطع نظر خود پاکستان کا زائچہ اس وقت سیاروی گردش کے مطابق کسی بڑی اور اہم نوعیت کی تبدیلی کا امکان ظاہر کر رہا ہے اور یہ تبدیلی وزیراعظم یا حکومت سے متعلق ہوسکتی ہے، جولائی ، اگست اور ستمبر کے مہینے اس حوالے سے اہم ہوسکتے ہیں ( واللہ اعلم بالصواب)
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مِرے آگے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں