ہفتہ، 4 فروری، 2017

کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟


عالمی جنگ کے تناظر میں نئے صدر امریکا کے زائچے پر ایک نظر
تاریخ عالم مثبت اور منفی سوچ کے حامل اچھے اور برے انسانوں سے خالی نہیں ہے،اچھے لوگوں نے ہمیشہ دنیا میں اچھے کام کرکے شہرت پائی اور برے لوگوں نے اپنی منفی سرگرمیوں سے دنیا کا امن و سکون برباد کیا،قدیم رومن شہنشاہ نیرو، کیلی گولا، خسروپرویز، چنگیز خان اور اس کے جانشین ، امیر تیمور اور بیسویں صدی میں ہٹلر، مسولینی، اسٹالن، مارشل ٹیٹو وغیرہ تاریخ عالم کے منفی سوچ رکھنے والے کردار ہیں،ممکن ہے کچھ لوگ ان کرداروں کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہوں، ان کا خیال ہو کہ یہ لوگ بہر حال قوم پرست تھے اور اپنی قوم کی ترقی اور عروج چاہتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی یا غیروں کی برائی سوچنے والا اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے بھی ایک ایسا گڑھا کھود رہا ہوتا ہے جس میں بالآخر پوری قوم دفن ہوجاتی ہے۔
یہ تمام کردار تاریخ عالم میں دہشت اور بربریت کی علامت بن گئے،لاکھوں، کروڑوں افراد ان کے ظلم و زیادتی کا شکار ہوئے،دنیا کا امن و سکون تباہ و برباد ہوا، ابھی ایسے لوگ بقیدِ حیات ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بھیانک نظارے دیکھے ہوں گے،مشرق سے مغرب تک آگ اور خون کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، اس تباہی و بربادی کی ابتدا جرمنی کے جمہوری ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر(ہٹلر الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے مسند اقتدار پر بیٹھا تھا) نے کی تھی، اس نے اپنے سے کمزور ملک پولینڈ پر حملہ کردیا اور پھر رفتہ رفتہ دیگر ملکوں کے خلاف بھی جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا، اس کا ساتھ دینے والوں میں اٹلی کا آمرِ مطلق مسولینی بھی تھا جس کی فوجیں اپنے ارد گرد کے ملکوں پر حملہ آور تھیں، نتیجے کے طور پر دیگر ممالک نے بھی ہتھیار اٹھالیے اور پھر دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی جو کئی سال جاری رہی،کروڑوں افراد لقمہ ءاجل بنے، معذور ہوئے، خوبصورت شہروں میں خوبصورت عمارتیں زمیں بوس ہوئیں، یورپ کھنڈر بن گیا۔
 مشرق میں جاپان نے تباہی مچادی، اس کی فوجیں برما تک آپہنچی تھیں، امریکا جو اس سارے تماشے سے دور بیٹھا تھا، وہ بھی ایک جاپانی حملے کی زد میں آیا اور بالآخر میدان جنگ میں کود پڑا، امریکا کی شرکت جاپان کو بہت مہنگی پڑی کیوں کہ نوایجاد ایٹم بم کا پہلا نشانہ اس کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاسا کی بنے ، گویا ہلاکت و بربریت کی انتہا ہوگئی۔
اس سے پہلے 1914 ءمیں پہلی جنگ عظیم برپا ہوچکی تھی جو بہر حال دوسری جنگ عظیم جیسی ہلاکت خیز بہر حال نہیں تھی، دونوں عالمی جنگوں کا آغاز بہر حال یورپ سے ہوا، اس کے بعد بے شمار موقع ایسے آئے جب دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ کے خدشات پیدا ہوئے،مثلاً کیوبا کے معاملے میں روس اور امریکا کی کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کے لوگ تیسری عالمگیر جنگ کی توقع کر رہے تھے مگر یہ خطرہ ٹل گیا، البتہ بعد ازاں جنگ کے طور طریقے اور انداز تبدیل ہوگئے، امریکا اور روس کے درمیان ایک خاموش جنگ کا آغاز ہوگیا جسے ”سرد جنگ“ کا نام دیا گیا،اس جنگ کا خاتمہ سویت یونین کا خاتمہ ثابت ہوا اور ایک سپر پاور نے دم توڑ دیا، اس کی جگہ روس کی موجودہ ریاست ہے جس کے سربراہ اب ولادیمیر پیوٹن ہیں جو کبھی روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ تھے۔
نئے اندازِ جنگ کے مطابق سپر پاورز براہ راست ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے کے بجائے اپنے زیر اثر ممالک کو لڑانے کا مشغلہ اپناتی رہی ہیں لہٰذا 1950 ءسے تادم تحریر بے شمار ممالک کے درمیان جو محاذ آرائیاں ہوتی رہیں،ان کی پشت پر روس اور امریکا بہر حال کسی نہ کسی طور موجود رہے ہیں یا کوئی نہ کوئی خفیہ کردار ادا کرتے رہے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کے جمہوری سربراہ نہایت دانش مندانہ طور سے مخالف ممالک کے خلاف منفی کھیل کھیلتے رہے،مشرق وسطیٰ کی متنازع صورت حال ہو یا پاک بھارت محاذ آرائی دنیا میں جہاں بھی دو ملکوں کے درمیان تنازعات موجود ہیں،سپر پاورز اپنا شاطرانہ کھیل کھیلتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر تیسری عالمی جنگ کی نوبت بہر حال نہیں آتی، کئی اعتبار سے یہ ایک اچھی بات ہے کیوں کہ عالمی جنگ تو بہر حال دنیا کی تباہی کا نام ہے،خصوصاً اس دور میں جب نیوکلیئر پاور جیسی خطرناک ایجادات موجود ہےں۔
عزیزان من! ماضی کے تناظر میں اس تمام گفتگو کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم علم فلکیات کی روشنی میں یہ محسوس کر رہے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا امکان 2019 ءمیں نظر آتا ہے اور یہ عالمی جنگ براہ راست سپرپاورز کے درمیان ہوسکتی ہے۔
 اس خیال کو مزید تقویت دنیا کے موجودہ منظرنامے سے مل رہی ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہم ممالک میں ایسے لوگ برسراقتدار آرہے ہیں جو اپنی منفی انتہا پسندانہ سوچ کے زیر اثر دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں،انڈیا میں نریندر مودی، شام میں بشار الاسد، مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی اور اب امریکا میں مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ۔
امریکی الیکشن کے دوران میں ہم نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے زائچے پر مختصر گفتگو کی تھی اور اس وقت کی گفتگو کا مقصد بنیادی طور پر ہیلری کلنٹن سے موازنہ تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے مسٹر ٹرمپ کے برتھ چارٹ میں موجود منفی رجحانات کا تذکرہ بھی کیا تھا، امریکی صدر کے موجودہ فیصلوں سے ساری دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور ہمیں کہنے دیجیے 
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ہمارے قارئین کے لیے یقیناً یہ ایک دلچسپ موضوع ہوگا کہ تیسری عالمی جنگ کے تناظر میں اہم ممالک اور ان کے سربراہان پر علم فلکیات کی روشنی میں ایک مطالعاتی جائزہ پیش کیا جائے، چناں چہ اس کی ابتدا ہم صدر امریکا سے کر رہے ہیں، واضح رہے کہ چند سال پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا درست زائچہ بھی ہم نے ہی پیش کیا تھا اور ان کی فطری شدت پسندی اور منفی رجحانات کی نشان دہی بھی کی تھی۔
آئیے صدر امریکا جناب ڈونالڈ ٹرمپ کے زائچے پر دوبارہ زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر ڈال لی جائے۔
صدر امریکا

مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ 14 جون 1946 ءکو جمیکا میں صبح 
10:54 am پر اس جہان فانی میں تشریف لائے، ویدک سسٹم کے مطابق ان کا شمسی برج ثور ہے اور برتھ سائن 6 درجہ 51 دقیقہ اسد (Leo) ہے جب کہ قمری برج عقرب اور پیدائشی قمری منزل جیشیٹھا ہے۔
برج اسد کو بادشاہوں کا برج کہا جاتا ہے،طالع کے درجات 6 درجہ 51 دقیقہ ہیں اور سیارہ مریخ برج اسد میں طالع کے درجات سے قران کر رہا ہے،طالع کا حاکم سیارہ شمس زائچے کے دسویں گھر میں اچھی جگہ لیکن متاثرہ ہے،جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ برج اسد کی شاہانہ مزاجی مشہور ہے لہٰذا کسی اسد شخصیت سے جمہوری تقاضوں کی پاسداری کی امید رکھنا عبث ہے،فرانس کے شہنشاہ نیپولین بوناپارٹ کا شمسی برج اسد تھا، پاکستان کے جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کا شمسی برج بھی اسد تھا اور سیکڑوں مثالیں اسدی افراد کے آمرانہ رویے کی دی جاسکتی ہیں،اسدی افراد کے زائچے میں شمس اگر ناقص اثرات کا شکار ہو تو یہ لوگ اپنے نظریات میں بہت زیادہ سخت اور منفی رجحانات کے حامل ہوسکتے ہیں ، اگر شمس کی پوزیشن بہتر ہو اور کسی بھی نوعیت کے نحس اثرات سے پاک ہو تو مثبت رجحانات اور اعلیٰ درجے کے بلند خیالات ، ہمدردی کا جذبہ وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔
زائچے کے دوسرے گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر برج جوزا میں نہایت طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے اور ہر طرح کی خرابی اور نحوست سے پاک ہے،زائچے کا دوسرا گھر اسٹیٹس ، فیملی اور ذرائع آمدن کو ظاہر کرتا ہے لہٰذا عطارد کی اچھی پوزیشن سے ان کی خوش حال فیملی ، معقول ذرائع آمدن اور اسٹیٹس جو اب عروج پر پہنچ گیا ہے،ظاہر ہے۔
مشتری دوسرے گھر میں برج سنبلہ میں ہے اور راہو کی نظر کا شکار ہے لیکن صرف 34 فیصد ، چوتھے گھر میں کیتو اور قمر حالت قران میں ہےں، قمر طالع اسد کے لیے فعلی منحوس سیارے کا اثر رکھتا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں چھوٹے موٹے مسائل کی بہتات ہوتی ہے جونہایت عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن قمر کے ساتھ کیتو کا قران اور راہو کی قمر پر نظر بارھویں گھر کی منسوبات کو نہایت منفی رنگ دیتی ہے اور ایسے لوگوں کی زندگی میں رنگینیاں اور سنگینیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں،علم نجوم میں قمر کا تعلق دماغ سے ہے اور راہو کیتو کے ساتھ قمر کا گٹھ جوڑ شدت پسندی اور پاگل پن لاتا ہے،ایسے لوگ جنونی ہوتے ہیں،دوسری طرف طالع کا حاکم شمس بھی راہو کیتو محور میں پھنسا ہوا ہے،انا کے مسائل جو برج اسد میں پہلے ہی موجود ہوتے ہیں، اس کمبی نیشن کے بعد لازمی طور پر منفی رُخ اختیار کرلیتے ہیں، زائچے کی یہ مختصر تشریح مسٹر ٹرمپ کے ذہنی ، دماغی اور مزاجی مسائل کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔
 زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ بھی زائچے کے بارھویں گھر میں سیارہ زحل کے ساتھ قریبی قران میں ہے،زحل زائچے کے ساتویں گھر کا حاکم، شریک حیات کی نشان دہی کرنے والا اور مسٹر ٹرمپ کے دیگر لوگوں سے تعلقات کی نشان دہی کرنے والا، دوسرے ملکوں یا مخالفین سے ان کی طرز عمل کی نشان دہی کرنے والا سیارہ ہے،زہرہ اور زحل کی بارھویں گھر میں موجودگی ان کی کمزوری اور مسٹر ٹرمپ کا دوسروں کے ساتھ حیران کردینے والا رویہ سامنے لاتی ہے، بے شک ان کی وائف بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں، انہیں اپنے شوہر سے بہت سی شکایتیں ہوسکتی ہیں۔
دسویں گھر میں راہو اور شمس حالت قران میں ہیں گویا راہو کیتو محور کے ساتھ زائچے کے دو اہم سیارگان قمر اور شمس بری طرح متاثرہ ہیں، دوسرے گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر میں طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے،گویا اس زائچے کا سب سے زیادہ سعد و باقوت سیارہ عطارد ہے،زہرہ اور زحل بارھویں گھر میں ہےں، زائچے کا نواں گھر بڑی اہمیت کا حامل ہے،اس کا تعلق قسمت ، باپ اور آئینی یا مذہبی امور سے ہے،برج حمل نویں گھر پر قابض ہے،اس کا حاکم سیارہ مریخ جو پہلے گھر میں برج اسد میں ہے،ڈائنامک کوالٹیز کا حامل ہے، مریخ کی جنگ جویانہ فطرت اور اپنی پسند کے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنا اس پوزیشن سے ظاہر ہوتے ہیں،یہ پوزیشن صاحب زائچہ کو نڈر اور جارح بناتی ہے،وہ اپنے ہی ضرورت کے تحت وضع کردہ اصول و قوانین کو اہمیت دیتا ہے،گویا ڈکٹیٹر شپ کا رجحان پیدا کرتا ہے،جیسا کہ ہم ایڈولف ہٹلر کے یا دیگر جارح حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے زائچوں میں بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں،ایسے لوگ کسی پیچیدہ اور خطرناک صورت حال میں انتہائی اقدام سے گریز نہیں کرتے اور ایسے ہی لوگ درحقیقت امن عالم کو تباہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
راہو کی مشتری پر بھی نظر ہے جو پانچویں شعور کے گھر کا حاکم ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحب زائچہ کا شعور بھی منفی اثرات سے پاک نہیں ہے، البتہ راہو اور مشتری کی نظر ایسے بزنس میں بے پناہ کامیابی کا باعث ہوسکتی ہے جو اسلامی نظریات کے مطابق ناجائز قرار پاتے ہیں یا جائز و ناجائز کی پروا کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔
فطری میلان
قمر برج عقرب میں ہبوط یافتہ اور راہو کیتو سے متاثرہ ہوکر فطری طور پر حسد ، جیلسی ، تنگ نظری اور دیگر اخلاقی برائیوں کو جنم دیتا ہے،چوں کہ برج عقرب ایک واٹر سائن ہے اور قمر یہاں ہبوط کا شکار ہوتا ہے،قمر کا تعلق دماغ سے ہے لہٰذا ایسے افراد راہو، کیتو کے اثرات کی وجہ سے اگر ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، اب تک اخبارات میں موصوف کے بارے میں جو جنونی نوعیت کے قصے سامنے آئے ہیں وہ قمر کی اس خرابی کی وجہ سے ہےں۔
سونے پر سہاگا یہ کہ قمر چاند کی منزل جیشٹھا میں ہے،یہ بڑا ہی شدت پسند اور جنونی نچھتر ہے،اگرچہ اس پر ذہانت کے سیارے عطارد کی حکمرانی ہے لیکن زائچے کی دیگر آراستگی کا رُخ منفی ہے لہٰذا غیر معمولی ذہانت کا رُخ بھی منفی ہوگا، مشہور امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوز کی پیدائش بھی اسی نچھتر میں ہوئی تھی جو ”خبطی ارب پتی“ کے نام سے مشہور ہوا، ان لوگوں میں منفی اثرات کی وجہ سے عجیب و غریب عادتیں یا رجحانات پیدا ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی میں ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، ان کا حلقہ ءاحباب محدود ہوسکتا ہے یا وہ تنہائی پسند اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں،ایک گُھنی یا منافقانہ فطرت کا مشاہدہ اس نچھتر کی خصوصیات میں کیا جاسکتا ہے،ایک عجیب تضاد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سختی سے مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مادّی آسائشوں کے متوالے بھی ہوتے ہیں،اس نچھتر کا بنیادی محرک مادّی ترقی ہے، یہ لوگ خود خیالی اور خود توقیری کے مابین ایک باطنی جنگ میں مصروف رہتے ہیں،ایسٹرولوجی ایسے لوگوں کو گھمنڈ ، تکبر اور انانیت کی روک تھام کرنے کا مشورہ دیتی ہے،یہ لوگ چڑچڑے، بدمزاج اور جھگڑالو فطرت کے ہوسکتے ہیں،بے شک یہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، اس نچھتر کے زیر اثر پیدا ہونے والی دیگر مشہور شخصیات میں عیسائی فرقے کا بانی مارٹن لوتھر، ماہر فلکیات کوپر نیکس، اطالوی فلسفی نطشے، جرمن موسیقار موزارٹ، عظیم مصور ونسٹ وین گوگ، خبطی ارب پتی ہاورڈ ہیوز، بدنام زمانہ لارنس آف عربیہ،الپسینو، بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واج پائی،پاکستانی سیاست داں اور دانش ور رسول بخش پلیچو وغیرہ شامل ہیں۔
حال و مستقبل
مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر امریکا کے طور پر اب وہائٹ ہاو ¿س میں براجمان ہیں،ان کے زائچے میں 16 نومبر 2016 ءسے سیارہ مشتری کا دور اکبر اور دور اصغر جاری ہے،جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی گئی تھی کہ مشتری زائچے کا سعد اور مضبوط سیارہ ہے،پانچویں گھر دانش، خوشیوں اور عروج و ترقی سے متعلق ہے اور زائچے کے دوسرے گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لہٰذا وہ ایک شاندار دور میں داخل ہوچکے ہیں ، ٹرانزٹ پوزیشن میں مشتری زائچے کے دوسرے گھر سے گزر رہا ہے اور آئندہ سالوں میں بھی مشتری کی سعادت انہیں حاصل رہے گی،چناں چہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں انہیں کوئی بہت بڑی پریشانی ہوسکتی ہے جو اپوزیشن یا دیگر مخالف قوتوں کی طرف سے ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے زائچے میں سیارہ شمس ہی صحت کے معاملات کا نمائندہ بھی ہے لہٰذا صحت کی خرابی سے متعلق معاملات وقتاً فوقتاً پریشان کرسکتے ہیں،دوسرا اہم نکتہ شمس کا راہو کیتو اور بارھویں گھر کے حاکم سے متاثر ہونا ہے، یہ ایک بڑی خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ اس پوزیشن کے تحت غیر طبعی طور پر زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے،ویسے بھی امریکا کے زائچے کے مطابق صدر مملکت کی زندگی کو خطرہ ہمیشہ سے ہے،شاید کسی بھی ملک میں اتنے زیادہ صدر حادثاتی حملوں کا شکار نہ ہوئے ہوں گے جتنے امریکامیں ہوئے لہٰذا موجودہ صدر امریکا کی سیکورٹی کے معاملات نہایت اہم ہیں۔
اسدی افراد کی ایک خامی خوشامد پسندی ہے، یہ تنقید کو ناپسند کرتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کو اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں،اس سال انہیں اپنے مشیروں کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
عزیزان من! اپنے زائچے کی روشنی میں صدر امریکا ہمیں ایسی شخصیت و فطرت کے مالک نظر آتے ہیں جو 2019 ءکے منظرنامے میں کسی عالمی جنگ کا اہم کردار بن سکتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں