ایک طالب علم کا پراسرار واقعہ اور پراسرار مرض
کائنات رب عظیم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کا مطالعہ روز بہ روزعقل انسانی کے لیے حیرتوں کے نت نئے باب کھولتا رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی صرف کرہ ارض پر موجود زندگی کے اسرارو رموز ہی سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکا۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں ابھی انسان کے قدم ہی نہیں پہنچ سکے۔ انسان کی بے بسی اور کم علمی تو اکثر زندگی کے روزمرہ مسائل کے مقابلے میں ہی نظر آجاتی ہے۔ وہ اپنی سی ہر کوشش کرنے کے بعد بھی جب ناکام ہوتا ہے تو سخت جھنجلاہٹ اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں یا بعض موذی اور تکلیف دہ بیماریوں کا ذمے دار کسی ماورائی نادیدہ پراسرار قوت کو ٹھہراتا ہے۔ ایک بار جب انسان حوصلہ اور ہمت ہار دے اور یہ سوچ لے کہ کوئی نادیدہ قوت اس پر اثرانداز ہورہی ہے تو پھر اسے ہر معاملے میں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، دنیا میں انسان سے زیادہ با صلاحیت اور کرشمہ ساز کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔ سحروجادو یا آسیب وجنات کوئی بھی ماورائی اثر زیادہ عرصے تک انسان کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ تاوقت یہ کہ وہ اپنا حوصلہ نہ ہار جائے اورذہنی طور پر شکست نہ تسلیم کرلے۔
ہمارے مشاہدے میں ایسے معاملات آتے رہتے ہیں جو حوصلے کی کمی کی وجہ سے اور غلط سوچ کی وجہ سے نت نئی پے چیدگیاں اختیار کر لیتے ہیں۔ کوئی ناکامی یا کوئی مشکل یا کوئی بیماری انسان کو ایسا پست ہمت اور توہم کا شکار بنا دیتی ہے کہ پھر وہ کوئی مثبت بات سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتا ہے۔
چند روز پہلے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو اپنا مسئلہ لے کر آئے تھے۔ ان کی عمر تقریبا 35 سال کے قریب ہوگی۔ تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرسکے تھے مگر بہت سے ہنر جانتے تھے۔ اب تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی نادیدہ قوت ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے جو انہیں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ وہ کاروبار کرتے ہیں تو اس میں نقصان ہوتا ہے۔ جاب کرتے ہیں تو زیادہ عرصے نہیں چلتی۔ شادی کے لیے بہت کوشش کی مگر شادی نہیں ہوتی۔ ایک جگہ دو سال پہلے منگنی ہوگئی تھی وہ ابھی تک قائم ہے مگر شادی کی نوبت نہیں آتی۔ لڑکی والے جب بھی شادی کی تاریخ دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بار لڑکی کی دادی کا انتقال ہوگیا۔ ایک مرتبہ لڑکی کے بھائی کو کاروبار میں نقصان ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اپنے گھریلو حالات بھی بہت خراب تھے۔ دوسال سے خود بھی بیروزگار بیٹھے تھے۔ بس گھوم پھر کر کوئی کام مل جاتا تو کرلیتے۔ دو سال پہلے تک کسی فیکٹری میں اچھی خاصی جاب تھی جو صرف اس وجہ سے چھوڑنا پڑی کہ فیکٹری کے کچھ سینیئر افسران ان سے ناجائز کام لینا چاہتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کا خیال یہی تھا کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ کسی پراسرار نادیدہ قوت کی کارفرمائی ہے۔
جب ان کا زائچہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ موصوف اول درجے کے بے فکرے، غیر ذمے دار، کام چور، آرام طلب اور فضول کاموں میں دلچسپی لینے والے انسان ہیں۔ ان کی غیر مستقل مزاجی اور غیر ذمے داری کا شاخسانہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے کام سیکھنے اور کرنے کے باوجود آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ابتدائی عمر میں کھڑے تھے۔ اب اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بہانے گھڑ لیے ہیں کہ میرے ساتھ کوئی پراسرار مسئلہ ہے۔ میں تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے کرنے نہیں دیا جاتا۔ پھر اپنے دعوے کے ثبوت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی۔ بولے ”میں نے چائے کا ہوٹل کھولا تو چائے بنانے کے لیے چولہے پر جو پانی رکھاوہ گرم ہی نہیں ہوتا تھا۔ خواہ کتنی دیر بھی آگ پر رکھا رہے مگر گرم نہیں ہوتا تھا۔ اب آپ بتائیں یہ سب کیا ہے؟“
ہمارے لیے ممکن نہیں تھاکہ ان سے کہتے”یہ سب آپ کی ڈرامے بازی ہے۔“ انہوں نے اپنے ایسے بہت سے واقعات سنائے کہ ان کے کھانے میں سے کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں۔ کبھی لال بیگ، کبھی مکھی اور حد یہ کہ ایک مرتبہ چھپکلی نکل آئی وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ان سے عرض کیا ”آپ الیکٹرک اور ایئر کنڈیشننگ کا اچھا کام جانتے ہیں اور اس کام کی ڈیمانڈ بھی بہت ہے پھر آپ نے یہ کام چھوڑ کر چائے کا ہوٹل کیوں کھول لیا؟“
کہنے لگے ”اس کام میں بے ایمانی کرنا پڑتی ہے اور جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اور چونکہ میں سخت مذہبی آدمی ہوں، ایک سلسلے سے بیعت ہوں لہذا یہ کام چھوڑدیا۔“
ہم نے عرض کیا ”جب آپ مذہبی بھی ہیں اور صاحب سلسلہ ہیں، بیعت کرچکے ہیں تو یقینا آپ کے پیرومرشد بھی ہوں گے؟ تو پھر آپ کے پیچھے جو چیز لگی ہوئی ہے اس سے نجات کیوں نہیں ملتی؟“
بولے”وہ ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیتی اور اسی وجہ سے ہمارے پیر صاحب بھی ہم سے ناراض رہتے ہیں اور اس معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔“
عزیزان من، یہ گفتگو اس لیے نقل کردی گئی ہے کہ آپ خود اندازہ لگالیں کہ مسئلہ کیا ہے اور صاحب مسئلہ کی کیفیت کیا ہے؟ دراصل ہم یہاں ایک اور مسئلے پر گفتگو کرنا چاہتے تھے مگر درمیان میں یہ واقعہ یاد آگیا۔ آئیے ایک خط کی جانب جو ای میل کے ذریعے ہمیں ملا ہے۔ نام اور جگہ ہم ظاہر نہیں کررہے۔
”میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میٹرک کے بعد میں نے جاب کے بارے میں سوچا لیکن والد نے مزید تعلیم جاری رکھنے پر زور دیا، والد اور گھر والوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے محنت کی اور اچھی پوزیشن لے کر یونیورسٹی تک آگیا، اس دوران میں ٹیوشن بھی کرتا رہا، گریجویشن کرنے کے بعد اب دوسال ہونے کو ہیں مجھے جاب نہ ملنا تھی، نہ ملی۔
”یہ دسمبر 2002 کی بات ہے۔ میں ٹیوشن پڑھا کر واپس گھر آرہا تھا، راستے میں ایک سنسان گلی میں مجھے زور کا پیشاب محسوس ہوا اور میں وہیں سائیڈ میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا، ابھی پیشاب کررہا تھا کہ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے سر میں ہتھوڑا مار دیا ہو اور میرا سر بھاری ہوگیا، حالاں کہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں جیسے تیسے گھر پہنچا اور آکر بستر پر لیٹ گیا۔ میری حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ جس جگہ چوٹ لگی تھی، وہ جگہ سن ہوتی جارہی تھی۔ آنکھیں لال پیلی ہوچکی تھیں اور جسم بھاری ہوگیا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر سارے گھر والوں نے رونا شروع کردیا اور ابو پڑوس کی مسجد کے قاری صاحب کو لے کر آئے۔ انہوں نے پورا واقعہ پوچھا،وہ اسی وقت ابو امی کو لے کر اس جگہ پر گئے اور تقریبا دو گھنٹے بعد واپس آکر انہوں نے کہا کہ جس جگہ آپ نے پیشاب کیا ہے وہاں جنات کی ایک فیملی بیٹھی تھی اور پیشاب کی چھینٹیں ان کو لگی ہیں جس پر اس فیملی کی ایک نوجوان لڑکی نے غصے میں آکر آپ پر حملہ کردیا ہے۔ آپ کے سر پرپچھلی طرف تھپڑ مارا ہے۔ میں ان جنات سے بات کرکے آیا ہوں۔ کل صبح دو کالی مرغیاں لے کر ان سے معافی مانگنی ہوگی پھر انہوں نے کچھ قرانی آیات پڑھ کر مجھ پر دم کیا۔ اس کے بعد میری حالت کچھ سنبھل گئی۔ دوسرے دن صبح دو کالی مرغیاں لے کر ہم وہاں گئے اور ان سے معافی مانگ لی، ان سب نے مجھے معاف کردیا مگر شاید جس جن لڑکی نے مجھ پر حملہ کیا تھا اس نے معاف نہیں کیا اور وہ تکلیف آج تک مجھے ہوتی ہے۔ سر بھاری اور سن ہوجاتا ہے۔ تعلیم کے دوران میں میرا سر اتنا بھاری ہوجاتا کہ سیدھا رکھنا مشکل ہوجاتا۔ اتنی تکلیف کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد مجھے اور بھی تکلیفیں شروع ہوئیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ دوسال پہلے یہ مسئلہ شروع ہوا کہ جسم سے بدبو آنے لگی حالانکہ میں صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ اس بدبو کے عذاب نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ میری سوشل لائف ختم ہوچکی ہے، شرم کے مارے کسی سے ملتا نہیں ہوں۔ سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہوں۔ اب ناامیدی حد سے بڑھ چکی ہے اور خودکشی کے خیالات زور پکڑ رہے ہیں۔ میرے گھر والے سب مایوس ہوچکے ہیں مگر اس مایوسی کی سیاہ کالی رات میں بھی ابھی ایک امید کی کرن باقی ہے۔ میں اللہ کی مدد کی روشنی کے انتظار میں ہوں۔ میں نے آپ کی کتاب مسیحا پارٹ ون میں اسم اعظم نکالنے کا طریقہ دیکھ کر اپنے نام کے اعداد 174کا اسم اعظم نکالا ہے جو یہ ہے۔ ”یا وہاب اللطیف۔“ اس کے علاوہ ”یا اللہ الوکیل“،”ھوالطبیب الحکیم“ اور ”یا طیب القوی“ سب کے اعداد 174ہیں۔ اب آپ بتائیں انہیں کس طرح پڑھا جائے۔ میں نے مختلف مقاصد کے تحت مختلف اسم اعظم نکالے ہیں۔ میں اس کی زکات سوا لاکھ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی آپ اجازت دیں۔“
جواب: عزیزم، آپ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ یقینا قابل غور ہے۔ بے شک سنسان اور ویران جگہوں پر جنات ہوسکتے ہیں لیکن اس طرح آباد گلی کوچوں میں جنات کی فیمیلیز قیام نہیں کرتیں۔ بے شک کسی بھی جگہ پیشاب کرنا دوسرے معنوں میں گندگی پھیلانا ایک نامناسب اور غیر اخلاقی بات ہے۔ قاری صاحب نے آپ کی بروقت مدد کی اور قرانی آیات پڑھ کر دم کیا جن کی وجہ سے آپ کو تقویت حاصل ہوئی، ڈر اور خوف دور ہوگیا لیکن کالی مرغیوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا، معافی کی حد تک بات ٹھیک ہے لیکن کالی مرغیوں کا بھتا جنات کودینا خاصا عجیب ہے، دوسری بات یہ کہ اگر آپ ایک غلط حرکت کر رہے تھے یعنی پیشاب کرنا شروع کردیا تو جنات کا وہاں بیٹھنا بھی قابل غور ہے، کیا آپ نے خود دیکھا تھا کہ کالی مرغیاں قاری صاحب نے جنات کو پیش کی تھیں؟آپ کو اپنے سر درد یا سر کی تکلیف کے سلسلے میں بھی قاری صاحب سے مزید رجوع کرنا چاہیے تھا۔
آپ کی دیگر بیماریوں کا تعلق اس واقعے سے الگ نظر آتا ہے۔ آپ نے جو مسائل اور تکالیف لکھی ہیں یہ عموما سفلس اور سائیکوٹک امراض میں پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر جسم یا پسینے اور دیگر اخراجات میں بدبوکا پایا جانا۔ ایک اور رہنما علامت آپ نے یہ بھی لکھی ہے کہ آپ کو صفائی اور پاکی کا بہت خیال رہتا ہے۔ یہ بھی سفلس کی علامت ہے۔
سفلس کی بیماریاں عموما غیر فطری مشاغل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں مگر ان کی ایک وجہ کسی نامناسب جگہ پر پیشاب کرنا بھی ہوسکتاہے خصوصا جلتی دوپہر میں تپتی زمین یا پتھر پر یا ایسی جگہ جہاں زمین میں چونا موجود ہو۔ بہرحال وجوہات کچھ بھی رہی ہوں آپ کو معقول علاج معالجے پر توجہ دینا چاہیے۔ایسی بیماریوں کا شافی و کافی علاج ہومیو پیتھک طریقہ ء کار میں موجود ہے۔ آپ کی بیماری اب خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے لیکن لاعلاج نہیں ہے۔گھر میں منہ چھپا کر بیٹھنے کے بجائے کسی تجربے کار ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنے ذہن سے یہ وہم نکال دیں کہ ”جن لڑکی“ کا تھپڑ ابھی تک آپ کے لیے ایک سزا بنا ہوا ہے اور اس کا آپ کو معاف نہ کرنا آپ کے لیے عذاب کا سبب ہے۔ ایسے واقعات زیادہ عرصے تک اپنا اثر نہیں رکھتے اور جو غلطی آپ سے ہوئی تھی، وہ بھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ جس کی سزا آپ کو عمر بھر بھگتنا پڑے۔ اللہ نے اتنا اختیار کسی کو نہیں دیا کہ معمولی باتوں پر غصے میں آکر زندگی بھر کسی کو عذاب میں مبتلا کرے۔ ایسا کرنے والا پھر خود بھی قہر خداوندی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو اس جن فیملی سے بھی یہ پوچھا جاسکتا تھا کہ آپ لوگ ایک راہ گزر میں دھرنا دیے کیوں بیٹھے تھے اور کیوں ایک شخص کے پیشاب کرنے کا نظارہ فرما رہے تھے جبکہ قانون قدرت کے مطابق وہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر آپ تو اس کو دیکھ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ اس کی حرکت تو غیر اخلاقی اس صورت میں ہوگی جب وہ آپ کو دیکھ کر اور جان بوجھ کر پیشاب کرتا۔ آپ کو ناپاک ہونے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا کہ اس جگہ سے دور ہٹ جاتے۔ بہرحال اب یہ بحث فضول ہے اور آپ اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دیں۔ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ جسم سے آنے والی بدبو صرف آپ کو محسوس ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی؟ ہمیں یقین ہے کہ یہ بدبو صرف آپ کو ہی محسوس ہوتی ہوگی۔ اگر دوسروں کو محسوس ہوتی تو آپ کے گھر والے ضرور اس کا نوٹس لیتے اور آپ کو کسی معالج کے پاس لے جاتے۔
آپ کا زائچہ دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ نے کچھ باتیں ہم سے بھی پوشیدہ رکھی ہیں اور اپنی بیماریوں کے سلسلے میں بعض وجوہات کو راز میں رکھا ہے کیونکہ آپ کا پیدائشی برج عقرب ہے اور طالع کا حاکم مریخ بارہویں گھر میں بیٹھا ہے جبکہ بارہویں گھر کا حاکم زہرہ طالع میں ذنب کے ساتھ ہے۔ یہ ”پری ورتن یوگ“ ہے اور یوگ بنانے والے اسٹار زہرہ اور مریخ پہلے بارہویں اور چھٹے ساتویں گھروں سے تعلق رکھتے ہیں لہذا پیچیدہ نوعیت کی ذہنی اور دماغی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ خفیہ راز ضرور ہوتے ہیں۔ ہم بھی ان کی نقاب کشائی نہیں کریں گے۔
آپ نے جو اسم اعظم ترتیب دیے ہیں وہ بلاشبہہ بہت شان دار ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اسم اعظم ”یا حی و یا قیوم“ بھی ہے کیونکہ دونوں اسمائے الہی کے اعداد 174 ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ کا پہلا مسئلہ صحت یابی ہے اور یا حی و یاقیوم کا ورد صرف نفع بخش ہی نہیں، صحت بخش بھی ہے۔ باقی فی الحال زکات ادا کرنے کی مہم میں خود کو نہ ڈالیں۔ آپ کی موجودہ حالت اور صحت ایسے وظیفوں اور چلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صرف ہومیو پیتھک علاج ہی آپ کی بگڑی ہوئی کیمسٹری کو درست کرسکتا ہے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!
بہت خوب جناب عالی سلامت رہیں بہت سے مسائل کا حل ہمارے اندر ہی موجود ہوتا ہے مگر ہم اسے کسی ماورائ مخلوق کے سر تھوپ کر بری ہو جاتے ہیں
جواب دیںحذف کریں