ہفتہ، 2 نومبر، 2019

علم نجوم کا دائرئہ اختیار اور زندگی کے مسائل

زندگی کے فطری اصولوں کی پاسداری ضروری ہے ،ملکی سیاست اور نواز شریف کی صحت

اسلام آباد ہنگامہ خیز سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے بعد اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، تمام اپوزیشن جماعتیں انھیں جس حد تک سپورٹ کرسکتی ہیں ، کر رہی ہیں لیکن مولانا کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے شکایات بھی پیدا ہوگئی ہیں، وہ جس بھرپور انداز میں ان پارٹیوں کی شرکت چاہتے تھے ، وہ نہیں ہوسکی ہے،ابھی تک نہیں معلوم کہ مولانا اپنا دھرنا کب تک جاری رکھیں گے اور ان کے مطالبات میں مزید کیا اضافے ہوسکتے ہیں، علم نجوم کی روشنی میں مولانا کا آزادی مارچ چاند کی آخری تاریخوں میں شروع ہوا تھا ، ایسے وقت پر کسی کام کا آغاز مناسب نہیں ہوتا، اسی طرح اسلام آباد میں ان کا داخلہ جس وقت ہوا تو قمر درعقرب کا نحس وقت تھا، یہ وقت بھی اچھا خیال نہیں کیا جاتا چناں چہ اس مارچ یا ممکنہ دھرنے کے شاید وہ نتائج حاصل نہ ہوسکیں جس کی مولانا کو اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو امید رہی ہوگی، دھرنا اگر زیادہ عرصے جاری رہا تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ 10 نومبر سے 20 نومبر کے درمیان میں کوئی ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے، اس خدشے کا اظہار ہم نے پہلے بھی کیا تھا، اسی عرصے میں غیر ملکی مداخلت یا کسی شرانگیزی کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری طرف ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت خاصی تشویش ناک صورت اختیار کرچکی ہے، ان کے پیدائش کے زائچے میں بھی سیاروی پوزیشن اچھی نہیں ہے، چھٹے گھر کا حاکم سیارہ زحل چوتھے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور آٹھویں گھر کے حاکم سیارہ مریخ سے حالت قران میں ہے، یہ صورت مرض کو بڑھانے میں معاون ہے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ بہت پابندی سے ہفتہ اور منگل کو صدقہ دیا جائے، مزید یہ کہ 6 نومبر 2011 ءسے زائچے میں عطارد کے دور اکبر میں چھٹے گھر کے حاکم سیارہ زحل کا دور اصغر شروع ہوجائے گا، یہ صورت حال بھی مرض کو بڑھانے اور مزید پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث ہوسکتی ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت و تندرستی عطا فرمائے، زحل کے دور اصغر کا آغاز ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ سیاست میں وہ زیادہ فعال کردار ادا نہیں کرسکیں گے (واللہ اعلم بالصواب)

نئے کردار آتے جا رہے ہیں 
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے 

ایسٹرولوجی کا علم اتنا وسیع اور گہرا ہے کہ یہ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے،کوئی بھی شعبہ ءحیات ہو، ایسٹرولوجی کے دائرئہ اختیار سے باہر نہیں ہے،چاہے وہ صحت کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہو یا کسی سخت ترین بیماری کا علاج معالجہ ، اچھی نصابی یا پیشہ ورانہ تعلیم ، جذباتی استحکام ، کاروباری معاملات و مسائل ، سرمایہ کاری کرنے کی ٹائمنگ، اشتہاری مہم ، شادی اور ازدواجی زندگی کے مسائل وغیرہ۔
جدید دور کی پیچیدگیوں سے ہر شخص ایک مستقل تناو ¿ کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اور مستقبل کے بارے میں فکر مند نظر آتا ہے،چاہے وہ مالی استحکام ہو یا خراب صحت میں بہتری لانا ہو، فیملی سے متعلق پلاننگ ہو ، سماجی حیثیت ، کرئر ، روحانیت کا فروغ یا ہمارے روحانی اور مذہبی مسائل وغیرہ ۔
 فیملی کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے کہ فیملی میں صحت مند بچے پیدا ہوں تاکہ وہ معاشرے میں اپنا صحت مند کردار ادا کرسکیں،میڈیکل سائنس کسی خرابی یا بیماری کا علاج کرنے میں ایک حد تک معاون ہوسکتی ہے لیکن 100 فیصد نہیں ، ایسٹرولوجی کی مدد اور تعاون اس سے بہتر نتائج دے سکتا ہے ، یہ ایک صحت مند بچہ پیدا کرنے میں بھی معاون ہے۔
 ایک صحت مند بچہ خاندان کی خوشیوں میں اضافہ کرتا ہے جب کہ ایک بیمار بچہ پورے خاندان کے لیے نہ صرف فکر مندی کا باعث ہوتا ہے بلکہ اپنی تعلیم وغیرہ میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے ، ایسا بچہ فیملی کی خوشیوں اور ان کی مثبت توانائیوں کو برباد کردیتا ہے۔
ایسٹرولوجی کا فلکیاتی علم پیدائش کے وقت بھی کسی کی زندگی کے مسائل زدہ پہلوو ¿ں کی شناخت کرنے میں مدد کرتا ہے اور نومولود کی دیکھ بھال اور نگہداشت کے لیے مناسب اور بہتر مشورہ دیتا ہے،آیئے ان طریقوں پر بات کرتے ہیں جس میں ہم بچوں کی صحت مند پیدائش اور پیدائش کے بعد کی صورت حال کو کنٹرول کرسکتے ہیں ۔

زندگی میں مشکلات کی وجوہات
عام طور پر انسانی زندگی میں مشکلات اور سختیوں کی یا بیماریوں کی چار وجوہات علم نجوم کی روشنی میں بیان کی جاسکتی ہیں۔
1 ۔ پیدائش کے زائچے میں سیارگان کی کمزوری ، خراب گھر میں واقع ہونا یا تحت الشعاع ہونا یعنی شمس سے ایک مخصوص فاصلے پر ہونا۔
2 ۔ کسی سیارے کا متاثر ہونا یعنی کسی دوسرے منحوس سیارے سے قران یا نظر میں ہونا۔
3 ۔ زائچے کے گھروں کا منحوس سیارگان سے متاثر ہونا۔
4 ۔ پیدائش کے وقت سُست رفتار سیاروں کی ساکت پوزیشن بھی نہایت منحوس اثر ڈالتی ہے اور نہ صرف یہ کہ پیدائش میں مشکلات پیدا کرتی ہے بلکہ بعد میں بھی ایسے سیارے مسائل پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
ایسٹرولوجی کے اصولوں پر عمل کرکے بڑی حد تک ایسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے اور زندگی میں خوشیاں لائی جاسکتی ہیں،بشرط یہ کہ ہم پہلے سے اس کے لیے پلاننگ کریں اور ہمارا ہر قدم ایسٹرولوجیکل موومنٹس سے ہم آہنگ ہو۔
ایک ذاتی مشاہدہ 
انگلینڈ سے ایک خاتون نے ہم سے رابطہ کیا اور اپنی نومولود بچی کے بارے میں سوال کیا کہ وہ زندہ رہے گی یا نہیں ؟ ہم عام طور پر ایسے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں اور پھر ایک ماں کو توکسی صورت میں بھی ایسا کوئی جواب نہیں دینا چاہیے جو اُس کی پریشانی میں اضافہ کردے لہٰذا ہم نے اُنہیں اطمینان دلایا اور تسلی دی،ساتھ ہی صدقات وغیرہ کی تاکید کی لیکن وہ ہماری باتوں سے مطمئن نہ ہوئیں بلکہ مستقل اصرار کرنے لگیں کہ آپ بچی کا تفصیلی زائچہ بناکر کوئی حتمی جواب دیں، ہم نے ایک بار پھر انہیں ٹالنا چاہا اور اُن کو اللہ کی رحمت پر یقین رکھنے کی ہدایت کی مگر خاتون بھی ٹس سے مس نہ ہوئیں ، انہوں نے بتایا کہ وہ خود ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھتی ہیں اور بچی کا زائچہ خود بناکر دیکھ چکی ہیں جو اطمینان بخش نہیں ہے، مزید یہ کہ ڈاکٹر حضرات بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کر رہے لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور میری ایسٹرولوجی کے علم کی روشنی میں تسلی و تشفی کریں،میں آپ کی جو بھی فیس ہوگی، وہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
یہ جاننے کے بعد کہ موصوفہ علم نجوم کی بنیادی شُدھ بُد رکھتی ہیں ، ہمیں اطمینان ہوا کہ وہ صورت حال کو دُرست طور پر سمجھ بھی سکیں گی اور کوئی خراب بات سامنے آئی تو اُس کے معقول علاج میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گی۔(عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ بعض تو ایسی کسی ایسٹرولوجیکل بات کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے ، ہاں اگر کوئی بابا صاحب یا باجی اللہ والی ٹائپ شخصیت نہایت جاہلانہ بات بھی کردے تو اُس کو بہت اہمیت دیتے ہیں)
 ہم نے بچی کا زائچہ تیار کیا اور اُس کی ریڈنگ رپورٹ انہیں بھیج دی ، ساتھ ہی ممکنہ علاج کے طریقے بھی سمجھا دیے،ڈاکٹروں نے انہیں سخت نا امید کردیا تھا اور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر بچی بچ بھی گئی تو ذہنی طور پر نارمل نہیں ہوگی اور اُن کی یہ بات غلط نہیں تھی،بچی کا زائچہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کی نشان دہی کر رہا تھا اور خاتون کی پریشانی بھی شاید اسی وجہ سے تھی ۔
زائچے میں اچھی صحت کا انحصار شمس کی بہتر پوزیشن پر ہے، بچی کا طالع پیدائش اسد تھا اور شمس کمزور ہے جو طالع کا مالک ہے ، قمر کا تعلق دماغ سے ہے وہ بھی متاثرہ تھا،عطارد کا تعلق ذہانت ، اعصاب اور سمجھ بوجھ سے ہے اس کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی، وہ بارھویں گھر میں تھا، مشتری اگرچہ دسویں گھر میں طاقت ور زہرہ کے ساتھ موجود ہے جو ملاویا یوگ بنارہا ہے مگر مشتری کا قران کیتو سے اور اس پر راہو کی پوری نظر ہے لہٰذا متاثرہ ہے ، مشتری پانچویں اور آٹھویں گھر کا مالک ہے، آٹھواں گھر گہری بیماری اور مصیبت کا گھر ہے،مریخ چوتھے گھر اور نویں گھر کا مالک ہے اور اس پر بھی کیتو کی پوری نظر ہے۔
پیدائش کے فوراً بعد کیتو کا دور جاری تھا جو تقریباً سال بھر بعد ختم ہونا تھا اور پھر زہرہ کے طاقت ور دور کا آغاز ہوگا،سب پیریڈ راہو کا تھا یہ بھی خطرناک تھا لیکن اکتوبر سے صورت حال تبدیل ہونا تھی،ہم نے انہیں ضروری صدقات اور مناسب ٹریٹمنٹ کے لیے کہا جس پر وہ عمل پیرا ہیں،یہ ٹریٹمنٹ لمبے عرصے تک کرنا پڑتا ہے۔بعد ازاں انہوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا اور ہم نے ازخود ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، دل میں یہی خیال رہا کہ شاید ہمارے بتائے ہوئے طریقہ کار کو اہمیت نہیں دی گئی ہوگی لیکن پھر اُن کی ای میل ملی کہ وہ دوبارہ اولاد کی نعمت حاصل کرنے جارہی ہےں، نجوم سے اپنی واقفیت کے باعث وہ چاہتی ہیں کہ آپریشن کے لیے کوئی سعد اور اچھا وقت منتخب کریں اور ایک اچھے وقت کا انتخاب بڑا ہی مشکل ترین کام ہے،اس لیے وہ پھر ہم سے مشورہ چاہتی ہیں ، مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبان ضروری نہیں ہے کہ اُس وقت کی پابندی کریں جو ہمارے خیال میں پیدائش کے لیے نہایت مبارک اور ہر اعتبار سے بہتر ہو،انہوں نے اپنے طور پر طالع برج میزان کا انتخاب کیا تھا مگر اُن کے علم میں یہ بات بھی تھی کہ زحل اور راہو برج میزان میں ہیں اور ہندو پنڈت اس پوزیشن کو ”شراپت یوگ“ کہتے ہیں اور اس یوگ کی نحوست کا بڑا چرچا ہے،حالاں کہ اب جدید تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ شراپت یوگ محض ہندو پنڈتوں کا فراڈ ہے،وہ اس بہانے سے لوگوںسے ہزاروں لاکھوں روپے کماتے ہیں ، یہی صورت حال ”کال سپرا یوگ“ کی بھی ہے اس یوگ سے بھی لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور اس کا توڑ کرنے کے لیے ہزاروں لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں یعنی جو کام ہمارے ہاں اکثر عامل حضرات بندش ، آسیب و جنات یا سحروجادو کے نام پر کر رہے ہیں وہی انڈیا میں بھی جاری ہے۔
بہر حال مذکورہ خاتون کی جو مددومعاونت ہم کرسکتے تھے وہ ہم نے کی اور الحمد اللہ ان کے ہاں ایک صحت مند بیٹا پیدا ہوا، اس کے بعد ایک بار پھر بچے کی پیدائش کا مرحلہ آیا اور ہم نے انھیں گائیڈ کیا جس کے نتیجے میں 2018 ءمیں اللہ نے انھیں ایک پیاری سی بیٹی دی۔
مناسب و موافق وقت کا انتخاب
عزیزان من! ہم یہاں چند بنیادی اصول بیان کر رہے ہیں جو مناسب اور موافق وقت کے انتخاب میں مددگار ہوسکتے ہیں مگر اچھے وقت کو پانے کے لیے علم نجوم سے واقفیت ضروری ہے تب ہی آپ حسابی طریقے پر عمل کرکے کسی مناسب وقت کا استخراج کرسکتے ہیں ۔
1۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ڈیلیوری کی متوقع تاریخ کے وقت زحل ، مشتری ، راہو اور کیتو جیسے سُست رفتار سیارے اپنی ساکت پوزیشن پر نہ ہوں۔ 
2 ۔ ایسے طالعات سے گریز کیا جائے جو راہو کیتو کے علاوہ بھی عملی منحوس حاکموں کی کثرت رکھتے ہوں یعنی ایک بہتر طالع پیدائش کا انتخاب۔
3 ۔ جب طالع کا انتخاب کرلیا جائے تو اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ زائچے میں سیارگان چھٹے ، آٹھویں اور بارھویں گھروں میں نہ ہوں۔
4 ۔ طالع کے درجات اس طرح مقرر کیے جائیں کہ وہ راہو ، کیتو اور دیگر زائچے کے عملی منحوس سیاروں کی نظر میں نہ ہوں اور اس سلسلے میں طالع کے درجات سے اور دیگر گھروں کے درجات سے دونوں طرف 5 ڈگری کے فاصلے کو مدِ نظر رکھا جائے،یعنی اگر طالع کے درجات 15 ڈگری ہوں اور راہو کیتو یا کوئی منحوس سیارہ 15 ڈگری سے پہلے یا بعد نظر قائم کرتا ہے تو یہ خطرناک بات ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں عام طور پر آپریشن کے ذریعے ڈیلیوری کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور نارمل ڈیلیوری کی خواہش کی جاتی ہے جو یقیناً ایک اچھا رجحان ہے مگر ہمارا ذاتی مشاہدہ و تجربہ یہ ہے کہ جب سے ہمارے ملک میں پرائیوٹ اسپتالوں کی بھرمار ہوئی ہے ، آپریشن زیادہ ہونے لگے ہیں ، بعض اسپتال اس سلسلے میں خاصے ظالم اور سفاک بھی ہوتے ہیں کیوں کہ آپریشن کی وجہ سے اُن کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ، غالباً بیرون ملک بھی آپریشن کے ذریعے ڈیلیوری اب عام بات ہے تو جب آپریشن ہی ناگزیر ہو تو پھر بچے کی پیدائش کے لیے اپنی مرضی کے وقت کا انتخاب کرنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا بچہ صحت مند اور اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہو۔
خیال رہے کہ ایسٹرولوجی کے ذریعے ایک صحت مند اور اچھی صلاحیت اور قسمت کے مالک بچے کی پیدائش ممکن ہے بشرط یہ کہ اللہ اس کی توفیق دے اور یہ توفیق اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب انسان اپنی زندگی فطرت کے اصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے، اللہ اور اُس کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت سے جنگ نہ کرے ورنہ ہمارا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ساری حکمت عملیاں اور تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور صورت حال میر تقی میر کے مطابق وہی ہوتی ہے اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں