انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا بہترین ذریعہ علم نجوم ہے
کائنات عجائبات سے بھری پڑی ہے جس طرف بھی نظر ڈالئے قدرت خداوندی کا کوئی نہ کوئی عجوبہ نظر آجائے گا۔ نظام فلکی میں گردش کرتے ہوئے سیارے اور زمین پر پھیلے ہوئے دست قدرت کے عقل کو حیران کر دینے والے شاہکار پہاڑ، دریا، جنگل، ریگستان، سمندر اور پھر رنگ برنگی مخلوقات عالم۔ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر چیز انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی نظر آتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے درمیان یا یوں کہیں کہ ان تمام عجائبات عالم کے درمیان سب سے بڑا عجوبہ خود انسان ہے لہٰذا سب سے زیادہ غور و فکر اور مطالعے و مشاہدے کی ضرورت انسانی ذات اور صفات کو ہے۔
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے شاید اسی وقت سے انسانی ذات و صفات کے مطالعے اور مشاہدے کا عمل شروع ہو گیا تھا جو آج تک جاری ہے اور شاید قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کام کی ضرورت تو دینی نکتہ نظر سے بھی ایک مسلم الثبوت اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ حدیث شریف میں یہ ارشاد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہے۔
’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ علم نجوم ہے جس کے نتائج صدیوں کی تحقیق، تجربے اور مشاہدے کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ آج ساری دنیا اس علم کی افادیت کی قائل ہے اور اس سے استفادہ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے معاشرے میں یہ علم عطائیوں اور دھوکے بازوں کی وجہ سے بہت بدنام ہے۔ اسے قسمت کا حال یا غیب کا علم سمجھا جانے لگا نتیجتاً مسلمانوں نے اس سے گریز کیا اور اسے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا۔ یہ روایت ہمارے ہاں آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ لوگ اس علم کو محض شعبدہ بازی اور قیاس آرائی یا پھر غیب دانی سمجھتے ہیں۔ اکثر نئے لوگ جب ہم سے ملتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس علم کا شوق رکھتے ہیں تو وہ بڑے خوش ہو کر نہایت بے قراری سے یہ ضرر کہتے ہیں۔ ’’اچھا تو جناب پھر کچھ ہمارے بارے میں بھی بتایئے۔‘‘
تب ہمیں خیال آتا ہے کہ لوگوں کو اس علم کی حسابی پے چیدگی، نازک مزاجی اور سنجیدگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ یقیناًایسا سوال ہر گز نہیں کرتے۔ لوگ کسی ایسٹرولوجسٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں وہ سب کچھ چند منٹ میں بتا دے گا جو کہ وہ خود بھی جانتے ہیں اور پھر وہ بے اختیار تعریفی انداز میں کہیں گے۔ ’’واقعی آپ نے تو کمال کر دیا‘‘ لیکن اس کے برعکس اگر وہ انہیں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہے جو پہلے انہیں معلوم ہی نہیں تھیں یعنی ان کی شخصیت و کردار کے اسرار، ان کے چال چلن کے رنگ ڈھنگ، اچھے یا برے طور طریقوں، کامیابیوں یا ناکامیوں کے اسباب، وقت کے اتار چڑھاؤ کے اثرات اور وقت کی مہربانیوں یا سفاکیوں کے رنگ وغیرہ تو یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے موقع پر ان پر اپنے جذبات و احساسات، ان کی اپنی پسند و ناپسند اور اکثر انا غالب آجاتی ہے اور وہ مطمئن نہ ہونے والے انداز میں یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی خاص بات تو بتائی ہی نہیں۔
عزیزان من! اس ساری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ علم نجوم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس علم کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم اس سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
ستاروں اور برجوں کے اشارے بڑی وسعت و گہرائی رکھتے ہیں۔ جو لوگ علم نجوم سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان اشاروں کو سمجھ کر ایک شاعرانہ پیرائے میں بیان کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ یہ اشارے نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ ان کا اظہار کرتے ہوئے لفظوں کے خوبصورت پیرہن کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر ان کا برہنہ اظہار ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔
قدیم زمانوں سے پیش گوئی کا انداز شاعرانہ ہی رہا ہے۔ دنیا کے عظیم پیش گو ناسٹرا ڈیمس کو جب یہ خوف ہوا کہ لوگ اس کی پیش گوئیاں سن کر کہیں اسے پاگل نہ سمجھنے لگیں یا وہ مقتدر حلقوں کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے تو اس نے اپنی تمام پیش گوئیاں اشعار کی شکل میں لکھ دیں جو آج تک محفوظ ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے کسی بھی پیش گو کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کی بات دوسروں کی سمجھ میں نہیں آئے گی یا وہ اس بات کا کوئی برا مفہوم لے لیں گے اور بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ خود کوئی واضح نام یا عنوان نہیں دیتے۔ مثلاً ناسٹرا ڈیمس ہی کی مثال لے لیجئے کہ اس نے اٹلی کے بادشاہ کے انجام کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لاش ایک لوہے کے بڑے سے تابوت میں ڈالی جائے گی جس میں 4 پہیے بھی لگے ہوں گے اور وہ تابوت خود بخود حرکت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کی موت سے 400 سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت تک نہ انجن دریافت ہوا تھا نہ موٹر کاریں بنائی گئی تھیں نہ ہی کوئی وین یا ایمبولینس ٹائپ سواری موجود تھی۔ اسی طرح پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے بارے میں اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا کہ ان جنگوں میں لوہے کے بڑے بڑے پرندے آسمان سے آگ برسائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ناسٹرا ڈیمس بہت قدیم پیش گو تھا موجودہ دور میں بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم باتوں ہی باتوں میں اٹک کر ناسٹرا ڈیمس تک جا پہنچے۔
عزیزان من! ہم صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ علم نجوم کو غیب دانی کا علم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ ایک حسابی علم ہے اور اس کے ذریعے سب سے پہلے اپنی ذات و صفات کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کے بعد وقت کی موافقت اور ناموافقت اس علم کا موضوع ہے۔ ان ہی دو باتوں پر ماضی، حال اور مستقبل کی پیش گوئیاں ممکن ہیں۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ انسان کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور اس عجوبے کے مسائل بھی عجیب ہی ہوتے ہیں جو انسان کے اندر موجود خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان تصادم کے بعد وجود میں آتے ہیں لیکن اکثر انسان یا تو اس کا ادراک نہیں رکھتے اور اگر ادراک ہو بھی جائے تو اپنی ذات کے مسائل سے نظریں چرانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
خیالات اور احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، ان تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیناک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات اور احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین، ان جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار، انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انھیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپا کی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات، حالات اور ماحول کے جبرکی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انھیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ، نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے ہیں، وہ لکھتی ہیں۔
’’خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اس طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا۔
فرض عبادت کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انھیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات’’آزاد نگاری‘‘ یا ’’خود نویسی‘‘ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں ، انھیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انھیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو، یہ دباؤ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ، ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر(اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ء علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ’’مشق تنفس نور‘‘ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہء علاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔
کون بہتر ؟
ایف، اے لکھتی ہیں۔’’میں آپ کو دو افراد کی تاریخ پیدائش دے رہی ہوں۔ ان میں سے میرے لیے کون بہتر ہے جس سے میں شادی کرسکوں؟
پہلا شخص کیتھولک غیر مسلم ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ میں نے اس کے لیے کئی مرتبہ دعا کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ اس کا دل بدل سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کو سمجھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن میں نے جب اسے اسلام کے اصولوں کے بارے میں بتایا تو اس نے ان کی تعریف کی۔ ہم دونوں کے درمیان خاصے طویل عرصے سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
دوسرا شخص مسلمان ہے۔ میں امید کرتی ہوں آپ میری مدد کریں گے تاکہ میں درست لائف پارٹنر کا انتخاب کر سکوں۔‘‘
جواب:۔ عزیزم! مختصر الفاظ میں آپ کے سوالات کا جواب صرف دو جملوں میں دیا جا سکتا ہے کہ فلاں موزوں ہے اور فلاں ناموزوں لیکن شاید اس طرح آپ کی تسلی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس کالم میں ہمارا مقصد صرف سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں بلکہ علم نجوم کے تجزیہ سے متعلق دلائل کا اظہار کرنا بھی ہے لہٰذا ہم دونوں افراد کی تجزیاتی رپورٹ یہاں پیش کر رہے ہیں۔ فریق اول جو غیر مسلم ہے اگرچہ آپ کے لیے ناموزوں نہیں ہے کیوں کہ آپ کا شمسی برج جوزا اور اس کا میزان ہے۔ دونوں کے درمیان معقول ذہنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے لیکن جہاں تک اس کے مذہب تبدیل کرنے کا سوال ہے اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی باتوں سے بقول آپ کے وہ خاصا متاثر ہے اور اسلامی اصولوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور آپ نے یہ بھی کہا کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ میزانی افراد توازن پسند اور ہم آہنگی برقرار رکھنے والے ہوتے ہیں خصوصاً تعلقات میں وہ کوئی ایسی بدمزگی نہیں چاہتے جس سے تعلقات متاثر ہوں لہٰذا اکثر ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اکثر مصلحت پسندی سے بھی کام لیتے ہیں اور اس خیال سے کہ کوئی تنازع نہ پیدا ہو، کبھی کبھی اپنے اصل نظریات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بے حد انصاف پسند ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کے نظریات پر غور و فکر کر لیتے ہیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دوسروں کا موقف سنتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے یا ان کے خیالات سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اس کا قمری برج عقرب ہے لہٰذا وہ اپنی فطرت میں نہایت گہری اور اپنے ذاتی نظریات میں بہت شدت پسندانہ مضبوط سوچ رکھنے والا انسان ہے اور اس حوالے سے اس کی سوچ کو تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے پیدائشی مذہب سے مطمئن نہ ہو اور دیگر مذاہب عالم کے حوالے سے بھی اس کی سوچ بے اعتمادی کا شکار ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس کے زائچے کی دیگر صورت حال بھی اس امکان کی نفی کرتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک رومان پرست اور اپنی خواہشات کا غلام انسان ہے۔ ممکن ہے آپ سے شادی کی خاطر یا کسی اور مقصد کے تحت مذہب تبدیل کر لے مگر یہ تبدیلی دائمی نہیں ہو گی چنانچہ یہ بات آپ کو بہرحال ذہن میں رکھنا ہو گی۔ زائچۂ پیدائش میں سیارہ عطارد الٹا پڑا ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور خیال نظریۂ ضرورت کے تحت اکثر و بیشتر بدلتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ بہرحال آپ بھی ایک بڑا قلابازیاں کھانے والا ذہن رکھتی ہیں لہٰذا ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘‘
فریق ثانی ہمارے نزدیک آپ کے لیے زیادہ موزوں شخصیت ہے۔ اس کا شمسی برج قوس ہے جو آپ کے برج جوزا سے مقابلے کا برج بھی ہے اور شراکت کا بھی۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے اچھے شریک کار اور شریک حیات ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جتنی بے چینیاں اور بے قراریاں، جلد بازیاں اور ذہنی قلابازیاں آپ کے اندر موجود ہیں اتنی ہی دوسری جانب بھی ہیں۔ گویا یہ نہلے پر دہلا ہے۔ آپ کو جن خوبیوں کی تلاش ہے وہ برج قوس میں موجود ہیں اور برج قوس کو جو باتیں لبھاتی ہیں اور جن حرکتوں سے وہ خوش ہوتا ہے وہ سب آپ کے اندر موجود ہیں۔ آپ دونوں بہت پرامید، خوش مزاج اور نہایت بے فکرے ہیں۔ ایک دوسرے کی رفاقت میں خوب انجوائے کریں گے۔ دونوں غیر معمولی طور پر ذہین ہیں اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو سراہنے والے اور خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کر دینے والے ہیں لہٰذا بہتر ہو گا کہ اپنی اسلامی مہم جوئی کو چھوڑ کر فریق ثانی کو لائف پارٹنر منتخب کر لیں۔
تعلیم اور شادی
ایس، ایچ لکھتی ہیں’’میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پہلے پری میڈیکل کا شعبہ اپنے لیے منتخب کیا تھا لیکن مالی حالات کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ پائی۔ اب میرا ارادہ پھر سے سخت جدوجہد کے ساتھ آگے پڑھنے کا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی کیجیے اور بتائیے کہ میرے لیے کون سا شعبہ صحیح رہے گا؟‘‘
جواب:۔ پیاری بیٹی! تم بہت بہادر اور ہمت والی ہو۔ تمہارے دو برج جدی اور سنبلہ خاکی عنصر رکھتے ہیں اور زائچے میں سیارہ زحل بھی اپنے برج عروج جدی میں ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری سوچ بہت عملی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ تم یقیناًاپنے والدین کے لئے ایک بیٹے کا کردار ادا کر سکتی ہو۔
بہتر ہو گا کہ اب اپنے لیے کامرس یا آرٹس کا شعبہ منتخب کرو۔ اگر آرٹس کا شعبہ لیتی ہو تو بعد میں ایل ایل بی کر سکتی ہو۔ قانون، اکاؤنٹس وغیرہ تمہارے لیے مناسب شعبے ہوں گے اور دوران تعلیم تمہیں وہ پریشانیاں بھی نہیں ہوں گی جو پری میڈیکل میں پیش آئیں۔ باقی تمہارے والد اگر تمہاری شادی کے لیے اصرار کر رہے ہیں تو اپنی دانست میں وہ بہرحال بہتر ہی سوچ رہے ہیں لیکن ہمارے خیال سے وہ ایسا کر کے غلطی کریں گے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے مزید یہ کہ خراب وقت چل رہا ہے۔ اس دوران میں اگر شادی ہوئی تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کم از کم تین چار سال تمہاری شادی نہ کی جائے اور تمہیں تعلیم مکمل کرنے اور کرئر بنانے کا موقع دیا جائے۔ تقریباً 2020۔ 2021 سے تمہارا بہتر وقت شروع ہو گا اس وقت تک تمہیں محنت اور جدوجہد کر کے اپنا تعلیمی کرئر مضبوط کرنا ہو گا۔ ہفتہ کے روز اپنا صدقہ کسی کالی چیز کا دیا کرو اور نیلم، ترملین یا گارنیٹ کا نگینہ بائیں ہاتھ کی سب سی چھوٹی انگلی میں پہن لیں۔
خاندانی شراکت
این، آر: عزیزم! آپ دونوں میاں بیوی کا شمسی برج جدی ہے لیکن چونکہ آپ کے قمری برج جدا جدا ہیں یعنی آپ کے شوہر کا قمری برج سرطان ہے اور آپ کا سنبلہ۔ یہ بہت اچھی بات ہے آپ دونوں کے درمیان اسی وجہ سے محبت اور ہم آہنگی ہے۔ دونوں عملی سوچ رکھتے ہیں مگر شوہر کا جھکاؤ اپنے خاندان کی طرف زیادہ ہے۔ قمری برج سرطان ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ماں، بہن، بھائیوں سے دور رہ کر خوش نہیں رہ سکتے۔ یہی چیز انہیں علیحدہ ہونے سے روک رہی ہے اور بنیادی طور پر آپ دونوں نہایت ضدی اور اپنی حاکمیت قائم کرنے والے ہیں۔ آپ اپنے شوہر کے مقابلے میں زیادہ سخت مزاج ہیں۔ مزید یہ کہ آپ کے قمری برج سے زحل کی ساڑھ ستی بھی چل رہی ہے لہٰذا ہمارا مشورہ یہی ہے کہ فی الحال معاملات کو زیادہ بگاڑنے کی کوشش نہ کریں، شوہر کی بات مان لیں اور جیسے تیسے ایک ہی گھر میں گزارا کریں۔ اپنے تنقیدی مزاج اور سخت رویہ پر نظر ثانی کریں۔ آپ کا شوہر بہت محبت کرنے والا اور نرم دل انسان ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سخت رویے اور دو ٹوک انداز میں اسے آپ سے کسی حد تک بدگمان کر دیا ہے اسی لیے وہ آپ کے ہاتھ میں پیسے بھی نہیں دیتا۔ آپ بے شک اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہیں اور نہایت ذمہ دار بھی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ محبت کے اظہار کی قائل نہیں ہیں، آپ کے عمل سے تو محبت ظاہر ہوتی ہے لیکن زبان سے اس کا اظہار کرنا ضروری نہیں سمجھتیں جب کہ آپ کا شوہر آپ سے یہی کچھ چاہتا ہے۔ آپ کا روکھا اور خشک انداز اور آپ کا بہت زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میاں بیوی کے درمیان رومانس کا قاتل ہے۔ اسی طرح قمری برج سنبلہ کی وجہ سے آپ سے کوئی غلطی برداشت ہی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کی غلطیوں کی بھی اصلاح کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اس طرح آپ دوست کم اور دشمن زیادہ بناتی ہیں۔ بہرحال آپ کے لئے بھی ہفتہ کے روز صدقہ دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر نیلم، گرین یا براؤن ترملین یا گارنیٹ میں سے کوئی پتھر بھی پہن لیں تو آپ کے مسائل کے حل میں آسانی ہو گی بصورت دیگر یاد رکھیں یہ سال آپ کو کسی بڑے جذباتی صدمے سے بھی دوچار کر سکتا ہے۔
آپ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ خدا کا خوف کریں ۔ علم الانسان بیشک اللہ کا تحفہ ہے ۔ بس اتنا کافی ہے آپ کےلئے۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںعلم الانسان بیشک اللہ کا تحفہ ہے
حذف کریں