ہفتہ، 14 جولائی، 2018

زمانہ ساز کوئی دوسرا ہے، میں نہیں ہوں

جن، بھوت، آسیب اور سحروجادو کا شکار مریضوں کے لیے خصوصی تحریر
ہمارے اندیشے درست نکلے، کے پی کے اور بلوچستان سے دہشت گردی کے واقعات کی اطلاعات آرہی ہیں، مزید یہ کہ نواز شریف اور ان کی صاحب زادی کی وطن واپسی اور گرفتاری کے نتیجے میں ن لیگی رہنما اور ووٹرز خاصے جذباتی موڈ میں نظر آرہے ہیں، تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے،وجہ یہی ہے کہ الیکشن کی تاریخ ایسی سیاروی صورت حال کے درمیان رکھی گئی ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، 13 جولائی کا سورج گہن اور پھر 28 جولائی کا چاند گہن ہر گز کسی مثبت اور تعمیری کام کے لیے موافق نہیں ہیں، دو گہنوں کے درمیان جو کام کیے جاتے ہیں ان کے نتائج بہتر نہیں نکلتے، مزید یہ بھی کہ دو منحوسوں کیتو اور مریخ کا قران سونے پر سہاگہ ہے ،تیسرا سورج گہن 11 اگست کو لگے گا، راہو کیتو کا تیسرا قران ستمبر میں ہوگا گویا صرف 25 جولائی تک ہی موجودہ سیاسی یا غیر سیاسی معرکہ آرائیاں نہیں ہیں، الیکشن ہو بھی گئے تو ملک میں استحکام اور قوم کے لیے سکون کا حصول ممکن نظر نہیں آتا، جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ نزدیک آرہی ہے، حادثات و سانحات میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا۔
دوسری طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اس بار ان کی پوزیشن کمزور ہے اور میدان تحریک انصاف کے ہاتھ میں رہے گا، پیپلز پارٹی میں زیادہ تجربے کار اور جہاں دیدہ لوگ موجود ہیں، وہ اس صورت حال میں بھی اپنے لیے کوئی مناسب راستہ تلاش کرسکتے ہیں لیکن ن لیگ کا مسئلہ نواز شریف ہیں جو اصولی طور پر سیاسی منظر نامے سے آؤٹ ہوچکے ہیں، ان کی ہر ممکن آرزو اور کوشش یہی تھی کہ زیادہ بہتر پوزیشن میں اقتدار سنبھالیں تاکہ آئینی تبدیلی کے ذریعے نواز شریف کے دامن پر لگے داغ دھل سکیں، چوں کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا لہٰذا ان کے لیے موجودہ الیکشن بے معنی ہوکر رہ گیا ہے،اگرچہ وہ بائیکاٹ کی بات نہیں کر رہے لیکن یقیناً ان کی خواہش یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں، اگلے الیکشن میں خاصے دن باقی ہیں، اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مرحلے پر ن لیگ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردے، اگر ایسا ہوگا تو موجودہ الیکشن کی حیثیت خاصی مشکوک ہوجائے گی اور بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان کے دشمنوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملے گا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت خاصی مشکل اور پریشانی کا شکار ہے،سارے مسائل سے نکلنے کے لیے وہ کیا حکمت عملی اختیار کریں گے ، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،کہانی الجھتی جارہی ہے، جمہوریت کا راگ بھی ایک بھونڈے تماشے میں بدلتا جارہا ہے ؂
یہ وقت صرف مِرا آئینہ ہے، میں نہیں ہوں
زمانہ ساز کوئی دوسرا ہے، میں نہیں ہوں
لاکھ جنات کا ایک جن، ہسٹیریا
جنات ، آسیب اور سحروجادو کے حوالے سے ہم ماضی میں لکھتے رہے ہیں لیکن ایک اور حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے جو ہمارے معاشرے میں بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ آسیبی مریض پیدا کرتا ہے، کچھ اس کے بارے میں بھی بیان کردیا جائے، یہ مرض ہسٹیریا ہے،گزشتہ تقریباً 25 سال کے عرصے میں ذاتی طور پر اور خطوط یا ای میلز کے ذریعے ہسٹیریا کے بے شمار مریض ہمارے مشاہدے میں آئے ہیں، مریض کے گھر والے عام طور پر ایسے کیسوں کو جنات و غیرہ کا معاملہ ہی سمجھتے ہیں اور فوری طور پر اس سلسلے میں مولوی حضرات یا عامل حضرات سے رجوع کرتے ہیں، پچھلے دنوں تقریباً پانچ کیس ایسے ہی ہمارے مشاہدے میں آئے چناں چہ اس موضوع پر لکھنے کا خیال بھی آیا، آپ یقین کریں کہ پانچوں افراد جن میں دو لڑکے اور تین لڑکیاں شامل ہیں، ہر گز کسی جن یا آسیب کا شکار نہیں تھے، ان کا مسئلہ سو فیصد ہسٹیریا تھا۔
ہسٹیریا کے بارے میں ماہرین نفسیات ور ماہرین طب کے درمیان خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے، قدیم حکماء اسے اختناق الرحم یعنی بچہ دانی کی بندش قرار دیتے ہیں اور اسے صرف خواتین کا مرض تصور کرتے ہیں، تمام طبی ماہرین نے یہ تصور آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل کے یونانی حکیموں اور دانش وروں کی تحقیق سے لیا ہے، ان کا خیال تھا کہ ہسٹیریا صرف عورتوں کی بیماری ہے اور اس کے دوروں کا تعلق بنیادی طور پر خواتین کے تناسلی اعضا سے ہے، ان اعضا میں بھی ’’رحم‘‘ کی خرابیوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ڈھائی ہزار سال پرانا یہ تصور تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آج بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور موجودہ صدی کے ابتدائی دس سالوں تک تو یہ بھی یقین کیا جاتا رہا ہے کہ صرف خواتین ہی ہسٹریا کے مرض کا شکار ہوتی ہیں لیکن جب جنگ عظیم اول کے دوران میں محاذ جنگ پر بے شمار فوجی جوان ہسٹریا کے دورے میں مبتلا ہوئے تو ماہرین نفسیات کو بھی اپنے نظریات تبدیل کرنا پڑے، البتہ دوسرا قدیم نظریہ کہ جنسی عدم مطابقت ہسٹریا کا باعث بنتی ہے، آج بھی مقبول و مشہور ہے اور تحلیل نفسی کے پیروکار ماہرین نفسیات کا یہی بنیادی فلسفہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہسٹیریا ایک نفسیاتی مرض ہے، جنسی عدم مطابقت کے علاوہ مختلف اقسام کی ذہنی پے چیدگیاں اور ذہنی دباؤ اس مرض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے کسی عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ہے، ہر عمر کے مرد، عورتیں اور بچے اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق سولہ برس سے 33 برس تک کے افراد ہسٹریا کا زیادہ شکار پائے گئے ہیں اور ان کی تعداد 67 فیصد تک پہنچتی ہے۔
عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے ہسٹریا پر قابل قدر تحقیق کی ہے، اس نے لاشعور میں پناہ گزیں تضادات اور محرومیوں کو اس مرض کی علت قرار دیا، اس کی تحقیق کے مطابق روز مرہ زندگی میں ہماری جبلی ضروریات بھوک، پیاس اور جنس وغیرہ اپنی تسکین کے لیے مصروف عمل رہتی ہیں، اس عمل کے دوران میں جب یہ ’’جبلی ضروریات‘‘ انسان کے شعور کا حصہ بنتی ہیں تو ماحول اور سماج کی عائد کردہ پابندیوں، مجبوریوں اور رکاوٹوں کی بنیاد پر ان جبلی ضروریات کی تسکین نہیں ہوپاتی لہٰذا انسان کے ذہن میں ایک تضاد جنم لیتا ہے جسے (Odd)نفس امارہ اور انا (Ego) کے تضاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔
فرائڈ کے نظریے کے مطابق ہسٹریا انسان کے کسی ذاتی مسئلے کے اظہار کا طریقہ ہے، ہسٹریا کا مریض اپنا مسئلہ بعض وجوہات کی بناء پر الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کرتا بلکہ جسمانی اشاروں کے ذریعے اس کے اظہار کی کوشش کرتا ہے۔
فرائڈ کی تشریح کے مطابق ’’اعصابی مریض اپنے افعال کے نتیجے میں اس مرض کا شکار نہیں ہوتے بلکہ جو کچھ ان کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ اس مرض کا سبب بنتا ہے‘‘ یہاں فرائڈ سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا، بہر حال اس کا اشارہ واضح طور پر ان اخلاقی، سماجی اور مذہبی پابندیوں کی طرف ہے جن کے باعث جنسی تحریکیں اور جبلی خواہشات دب کر نفس امارہ کا حصہ بن جاتی ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے یعنی جب بھی انا کمزور پڑتی ہے، نفس امارہ اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے، اس کشمکش کے نتیجے میں انسان اعصابی مریض بن جاتا ہے، آئیے اس مسئلے کو مزید وضاحت سے بیان کریں۔
معاشرتی حوالے سے فرد کی بقا اور عزت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو کچل دے، دبادے، جن کی تسکین و تکمیل ماحول اور سماج کی عائد کردہ پابندیوں، مجبوریوں اور کاوشوں کی وجہ سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ دوسری صورت میں فرد کی سماجی حیثیت اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی نظر میں اپنے وقار اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، خواہشات کو دبانے اور کچلنے کا عمل لاشعوری ہوتا ہے، اس عمل میں غیر تسکین شدہ جبلی خواہشات شعور سے نکل کر لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں (ہمارے خوابوں کی رنگین و سنگین کہانیاں بھی اسی صورت لاشعور سے جنم لیتی ہیں)
اگر سمندر کی سطح کو ہم شعور سے تشبیہ دیں تو اس کی اتھاہ گہرائی کو ہم لاشعور کہہ سکتے ہیں یعنی لاشعور ہمارے ذہن کا ایک ایسا ہی گہرا حصہ ہے جس کی ماہیت اور بناوٹ سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہوتے، ہمارے بے شمار خیالات، احساسات اور محرومیاں اس گہرے حصے میں ایسی خاموشی سے دفن ہوتے رہتے ہیں کہ ہمیں خبربھی نہیں ہوپاتی اور نہ ہم کبھی اپنے لاشعور میں موجود احساسات اور خیالات سے آگاہ ہوپاتے ہیں جو کہ عموماً محرومیوں کی تلخی اور تندی کا رنگ لیے ہوئے ہوتے ہیں مگر ہمارے ذہن کا یہ حصہ یعنی ہمارا لاشعور ہمارے کردار کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول ضرور کرتا رہتا ہے اور ایک ذہنی عدم مطابقت کا باعث بنتا ہے۔
فرائڈ کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق لاشعور میں دھکیلا جانے والا مواد یا خواہشات اپنے اظہار یا تسکین کے لیے راستہ تلاش کرتا رہتا ہے اور بالآخر یہ اظہار براہ راست ہسٹریا کی جسمانی اور ذہنی علامتوں کی صورتوں میں ہوتا ہے۔
ہسٹیریا کی اقسام
ہسٹریا کی تشخیص میں اس مرض کی دو اقسام تسلیم شدہ اور مشہور ہیں، پہلی قسم ’’تحویلی یا افعالی ہسٹریا‘‘ اور دوسری ’’اختراقی ہسٹریا‘‘
تحویلی ہسٹریا میں حواس اور خود ارادی نظام عصبی کے اعمال میں نقص پیدا ہوتے ہیں، یہ نقائص احساسات اور حرکات دونوں اقسام کے ہوسکتے ہیں مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ان نقائص کے باوجود طبی تشخیص انسان کے جسمانی نظام میں کوئی عضویاتی اور کیمائی خرابی کی نشان دہی نہیں کرپاتی، ہسٹریا اور دیگر عضویاتی نقائص کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض مثلاً مرگی میں بنیادی فرق یہی ہے۔
تحویلی ہسٹریا کی شناخت میں مندرجہ ذیل علامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، مریض کی جلد بے حس ہوجاتی ہے، اسے درد، تکلیف، گرمی، سردی کا احساس نہیں ہوتا، بینائی میں نقص آجاتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا رہتا ہے یا دھندلا دکھائی دیتا ہے، بولنے کی طاقت کم محسوس ہوتی ہے یا بالکل ختم ہوجاتی ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے، جسم کا کوئی حصہ مفلوج و ناکارہ ہوجاتا ہے مگر یہ فالج مخصوص نوعیت کا ہوتا ہے مثلاً شانے تک بازو ، کلائی تک ہاتھ یا کبھی صرف انگلیاں حرکت سے معذور ہوجاتی ہیں، اس طرح ایک یا دونوں ٹانگوں کا فالج، صرف گھٹنے تک یا کولہے کے جوڑ تک مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان لیٹے ہونے کی حالت میں اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کے قابل ہوتا ہے، اگر مکمل فالج کی کیفیت نہ ہو تو اکثر چلنے پھرنے کی قوت کم ہوجاتی ہے، دوسری صورت میں ہسٹریا عمومی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جو ہمارے عام مشاہدے میں آتی رہتی ہیں، جسم کو جھٹکے لگتے ہیں، مریض کو ایسے دورے پڑتے ہیں جن سے ہاتھ پاؤں اور جسم اکڑ جاتا ہے، دم گھٹنے کی کیفیت حلق میں پھندا سا لگ جانا، لکنت کی شکایت، بہت زیادہ پسینہ آنا، متلی کی کیفیت اور بھوک کا ختم ہوجانا یا بے تحاشا بڑھ جانا وغیرہ یہ تمام جسمانی علامات کسی بھی اعصابی نقص کے بغیر ہوتی ہیں، یعنی تحویلی ہسٹریا میں لاشعوری محرکات ان جسمانی نقائص کی علت ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اختراقی ہسٹریا میں یہ لاشعوری محرکات ذہنی نقائص کا باعث ہوتے ہیں۔
اختراقی ہسٹریا کے مظاہرے میں یاد داشت اور شعور کی خرابیاں اہمیت کی حامل ہیں، ان خرابیوں اور نقائص کے ذریعے انسان لاشعوری طور پر ایسے واقعات و حادثات سے جنھیں اس کا شعور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، فرار حاصل کر رہا ہوتا ہے یا پھر وہ اپنی کسی دبی ہوئی خواہش کی تسکین کر رہا ہوتا ہے، اختراقی ہسٹریا کی علامتیں یہ ہوسکتی ہیں، یادداشت کی کمزوری یا بالکل ختم ہوجانا یہ جزوی یا مکمل طور پر بھی ہوسکتی ہیں لیکن اس خرابی کی کوئی عضویاتی وجہ نہیں ہوتی، اس حالت میں انسان اپنی پہچان،اپنا نام، پتا، خاندان اور ماضی فراموش کردیتا ہے، اسے سماجی عادات و اطوار اور اپنی ذلت کے علاوہ بے شمار باتیں یاد رہتی ہیں، نیند کی حالت میں چلنا بھی اختراقی ہسٹریا کی ایک قسم ہے۔
ایک اور قسم فیوگ (FUGE) کہلاتی ہے، اس میں انسان مکمل طور پر اپنی پہچان بھول جاتا ہے اور ایک بالکل مختلف قسم کی شخصیت بن جاتا ہے، یہ کوئی جناتی یا روحانی شخصیت بھی ہوسکتی ہے، فیوگ یادداشت کی خرابی کی ایک حالت ہے جو کسی سخت ذہنی جذباتی دباؤ کے بعد جنم لیتی ہے، فیوگ کا مریض ٹھیک ہونے کے بعد یعنی دورے سے نجات پانے کے بعد خود فراموشی کی حالت میں کیے گئے تجربات یاد نہیں رکھ سکتا، یہ مشکلات اور تلخیوں سے فرار کی ایک حالت ہوتی ہے کیوں کہ فرد کا شعور پیش آنے والے تلخ واقعات اور مسائل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اختراقی ہسٹریا کی ایک قسم وہ ہے ’’جسے کثیر شخصیتی‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں انسان دو یا دو سے زیادہ شخصیتوں کا روپ دھار لیتا ہے، ہر شخصیت میں انسان کا کردار علیحدہ اور مخصوص نوعیت کا ہوتا ہے اور وہ خود اس بات سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔
ہسٹیریا کی مندرجہ بالا اقسام علم نفسیات کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق بیان کی گئی ہیں، اس سلسلے میں خالص طبی نکتہ ء نظر سے اختلاف ممکن ہے اور پیراسائیکولوجی (مابعد النفسیات) کے ماہرین کی تحقیقات اور مشاہدہ مزید اقسام پر روشنی ڈالتا ہے، شعبہ ء نفسیات گورنمنٹ کالج جھنگ کے ایک سروے کے مطابق جو 1986 ء میں کرایا گیا تھا، آبادی میں ہسٹریا کے مریضوں کا تناسب ستائیس فیصد تھا، اب یقیناً یہ تناسب مزید بڑھ چکا ہے، خصوصاً کراچی میں یہ بات ہم اپنے ذاتی سروے کی بنیاد پر بھی کہہ رہے ہیں جس کی بنیاد وہ بے شمار خطوط میں جو پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ہمیں موصول ہوتے ہیں، ایسے معاشرے میں جہاں افراد جذباتی گھٹن اور دباؤ کا مستقل طور پر شکار رہتے ہوں، ہسٹریا، شیزوفرینیا، مالیخولیا، مراق اور مرگی کے مریضوں کا تناسب بڑھنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے، آخر میں ایک اہم نکتہ اور ذہن نشین کرلیجیے، اوپر جن نفسیاتی امراض کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان سب کی والدہ ماجدہ کا نام ہے’’افسردگی‘‘ یعنی ’’مس ڈپریشن‘‘ اور والد ماجد ہم ’’تناؤ‘‘ یعنی ’’مسٹر ٹینشن‘‘ کو قرار دیں گے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وہ تمام امراض ہیں جو بالآخر کسی آسیبی، جناتی یا جادوئی سلسلے سے جڑجاتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں