ہفتہ، 18 نومبر، 2017

ایک شعلہ و شبنم فطرت و کردار کے مالک ڈاکٹر فاروق ستار

علم نجوم کی روشنی میں ایک تجزیاتی رپورٹ، خوبیاں، خامیاں، فطری میلان و رجحانات
مشہور ماہر نفسیات کارل یونگ کا قول ہے کہ میں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ایسٹرولوجی سے مدد لی ہے،ان کی وفات کے بعد ایسٹرولوجی کے مخالف گروپ نے کارل یونگ کے اس قول کی صحت سے انکار کیا لیکن ثبوت و شواہد موجود تھے،اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہ تھا۔
اس میں کوئی شک و شبہے کی کی گنجائش نہیں کہ علم نجوم درحقیقت ایک ایسی سائنس ہے جو انسان کی شخصیت و کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے اور ہماری پیچیدہ نفسیات کی پیچ در پیچ گتھیوں کو عیاں کرتی ہے، مزید آگے بڑھ کر ہم شخصیت و کردار کے مطالعے کے بعد اس علم کی مدد سے وقت کی اہمیت اور خوبیوں یا خرابیوں یعنی سعادت و نحوست کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں، دنیا بھر میں اس علم سے ایسے ہی مفید کام لیے جارہے ہیں، ہماری بات اور ہے کہ ہمارے ملک میں اس سائنٹیفک علم کو علم غیب یا قسمت کا حال سمجھا جاتا ہے اور پھر مذہبی انتہا پسند اس کے خلاف فتوے دیتے ہیں، بڑے بڑے ثقہ مفتیان کرام نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث علم نجوم کے خلاف پیش کرتے ہیں، حالاں کہ وہ حدیث علم نجوم کے نہیں بلکہ کہانت کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے ”جس نے کاہن کی بات مانی وہ ہم میں سے نہیں ہے“ اس مفہوم کی ایک سے زیادہ احادیث ہوسکتی ہیں، ہمارے مفتیان کرام کاہن کا ترجمہ نجومی کردیتے ہیںکیوں کہ وہ اپنی کم علمی کے سبب علم نجوم کو بھی غیب دانی کا علم سمجھتے ہیں، حالاں کہ موجودہ دور میں تو یہ بات مزید پایہ ءثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ علم نجوم علم ریاضی اور فلکیاتی سائنس کا علم ہے ، آج دنیا بھر میں اس علم پر اعلیٰ درجے کے ایسٹرولوجیکل سوفٹ ویئرز تیار ہوچکے ہیں، کسی غیب دانی کے علم پر کوئی سافٹ ویئر تیار نہیں ہوسکتا۔
کہانت یقیناًغیب دانی کے زمرے میں آتی ہے، عربوں میں کاہنوں سے مشورے لینے کا رواج تھا، زمانہ ءجاہلیت میں خانہ ءکعبہ میں بھی کاہن تعینات تھے جو اہم معاملات میں تیروں کے ذریعے فال نکال کر پیش گوئی کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے محترم والد حضرت عبداللہ کی قربانی حضرت عبدالمطلب کرنا چاہتے تھے، تمام عزیز رشتے دار اور پورا قبیلہ اس قربانی کے خلاف تھا لیکن حضرت مطلب اپنی منت اور خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہتے تھے،آخر کاہن کے ذریعے فال نکالی گئی تو حضرت عبداللہ ہی کا نام آیا، آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ مدینے میں ایک کاہنہ سے رجوع کیا جائے وہ اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کرے گی،چناں چہ ایسا ہی کیا گیا اور کاہنہ نے بھی تیروں کے ذریعے فال نکالنے کا ایک منفرد طریقہ تجویز کیا، اس نے کہا کہ ایک تیر پر حضرت عبداللہ کا نام لکھا جائے اور دوسرے تیر پر دس اونٹ مقرر کیے جائیں، اگر اونٹ والا تیر نکل آئے تو دس اونٹوں کی قربانی دے کر آپ اپنی منت پوری کرلیں اور حضرت عبداللہ کی قربانی سے رک جائیں لیکن اگر پھر بھی حضرت عبداللہ ہی کا انعام نکلے تو دوسری مرتبہ قرعہ اندازی کی جائے اور اونٹوں کی تعداد بڑھادی جائے اور اس وقت تک یہ تعداد بڑھاتے رہےں جب تک اللہ راضی نہ ہوجائے لہٰذا سو اونٹوں پر فیصلہ ہوگیا، حضرت عبداللہ کی جان بچ گئی۔
کہانت کی اور بھی بہت سی اقسام عرب میں اور دیگر ممالک میں رائج رہی ہےں،کاہن مختلف مندروں، عبادت گاہوں وغیرہ میں اپنی پیش گوئیوں کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے تھے،کہانت بنیادی طور پر اپنی روحی یا روحانی صلاحیت کے ذریعے پیش گوئی کرنے کا نام ہے،یہ کام آج کے دور میں بھی جاری و ساری ہے،مکاشفہ یا استخارہ اسی کہانت کی ایک شکل ہے جس کی اسلامائزیشن کرلی گئی ہے۔
عزیزان من! گفتگو کا رُخ ایسی جانب مڑ گیا جو ہمارا فی الحال موضوع نہیں ہے، ہماری گزارش یہ ہے کہ خود کو اور دوسروں کو سمجھنے اور جاننے پہچاننے کے لیے اس سائنٹیفک علم سے استفادہ کرنا چاہیے،دنیا بھر میں اس علم سے ایسے ہی کام لیے جارہے ہیں،بڑی بڑی کمپنیاں اعلیٰ عہدوں پر کسی کی تعیناتی سے قبل اس کے ایسٹرولوجیکل بائیو ڈیٹا کو مدنظر رکھتی ہیں کہ وہ متعلقہ عہدے کے لیے موزوں امید وار ہے یا نہیں؟
ہماری کتاب ”آپ شناسی“ اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے،کم از کم عام لوگ جو ایسٹرولوجی کی باریکیوں اور زائچہ ریڈنگ کی الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتے،ان کے لیے یہ کتاب صرف شمسی برج (sun sign) کو بنیاد بناکر لکھی گئی ہے،ہر شخص کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم ہے،وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کا شمسی برج کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے برج کو اپنا ”اسٹار “ کہتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے رہنما
اس تمام گفتگو کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم زیادہ حساس اور نازک موضوع کو چھیڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اگرچہ یہ چھیڑ چھاڑ پہلے بھی جاری رہی ہے لیکن بہت مختصر اور اکثر اشاروں کنایوں میں ، کیوں کہ مشہور شخصیات پر بات کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے،پہلے بھی ہم بعض سیاسی یا فوجی اہم شخصیات کے زائچوں پر بات کرتے ہوئے ان کی خوبیوں ، صلاحیتوں اور خامیوں وغیرہ پر روشنی ڈالتے رہے ہیں، اس بار ہمارے پیش نظر کراچی کی دو مشہور شخصیات ہیں جو گزشتہ دنوں پورے پاکستانی میڈیا پر چھائی ہوئی تھیں یعنی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ جناب فاروق ستار صاحب اور پی ایس پی کے جناب سید مصطفیٰ کمال۔
ایم کیو ایم کراچی ، حیدرآباد اور میرپورخاص وغیرہ کی ایک نمائندہ جماعت ہے، اس کی ابتدا آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے ہوئی تھی اور پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوگئی،گزشتہ سال سے ایک بار پھر نئے مرحلوں اور نئے ناموں کا دور دورہ جاری ہے،22 اگست 2016 ءکے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ جناب فاروق ستار ہوگئے ہیں لیکن اس سے پہلے ہی ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما جناب مصطفیٰ کمال کی 3 جون 2016 ءکو آمد نے کراچی کی سیاست میں ایک نیا محاذ کھول دیا اور انہوں نے ایک نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا، دونوں پارٹیاں سندھ کے شہروں کی اردو اسپیکنگ آبادی کے حقوق کا حصول ممکن بنانے کے لیے میدان سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہےں۔
 اصولی طور پر تو ان کی کارکردگی اور مستقبل کے حوالے سے پارٹی کے زائچے کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ 2013 ءکے انتخابات سے قبل فروری مارچ میں ہم نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے زائچے خاصی تحقیق اور محنت کے بعد پیش کیے تھے جس میں ایم کیو ایم کا زائچہ بھی تھا اور اس کی روشنی میں ہم نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایم کیو ایم 2013 ءکا انتخاب جیت لے گی لیکن اس کے بعد پارٹی میں انتشار و خلفشار کا جو عمل شروع ہوگا اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو 2017 ءتک اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوگی، آج تقریباً5 سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے ایسٹرولوجیکل اندوزوں کے مطابق ہی سامنے آیا ہے اور ابھی یہ عمل جاری ہے،ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ 2017 ءسے ایک بہتر دور کا آٓغاز ہوگا تو شاید یہ سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
ہم کراچی میں رہتے ہیں اور کراچی ہی میں پیدا ہوئے ، ہمارا تعلق بھی انہی لوگوں میں سے ہے جو 1947 ءمیں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی ، سندھ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز کرکے ہم خوش اور مطمئن رہیں،اکثرو بیشتر اس حوالے سے جو بھی اچھا برا ذہن میں آتا ہے،ا س کا اظہار کرتے رہتے ہیں ، جناب فاروق ستار اور مصطفی کمال کے زائچوں پر بھی نظر ڈالنے کا خیال اسی لیے آیا ہے کہ اپنے ان قائدین کی خوبیوں ، خامیوں، صلاحیتوں سے آگاہی حاصل ہوسکے، آپ کو یاد ہوگا کچھ دن پہلے ہی جناب شہباز شریف اور پاک آرمی کے چیف جناب جنرل قمر باجوہ کے زائچے پر بھی اسی جذبے کے تحت اظہار خیال کیا گیا تھا، ماضی میں دیگر مشہور شخصیات پر بھی گفتگو ہوتی رہی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہی ہے کہ ہم جان سکیں کہ ہماری باگ دوڑ اور ہمارا مستقبل کن ہاتھوں میں ہے کیوں کہ 70 سال بعد بھی مندرجہ ذیل شعر ایک سوالیہ نشان کی طرح ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے
موجودہ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان
جناب فاروق ستار صاحب کی دستیاب تاریخ پیدائش 9 اپریل 1959 ہے، ہمارے اندازے کے مطابق ان کا وقت پیدائش صبح 5:29 am ہوسکتا ہے،اس طرح زائچے کے پہلے گھر میں برج حوت (pieses) کے سات درجہ 49 دقیقہ طلوع ہےں، اس کا حاکم سیارہ مشتری ہے، جب کہ جنم راشی یعنی قمری برج حمل ہے ، اس کا حاکم سیارہ ڈائنامک مریخ ہے اور قمری منزل اشونی ہے جس پر غضب ناک کیتو حکمران ہے۔
زائچے کے سعد اور فائدہ بخش سیارگان میں مشتری ، مریخ، عطارد، قمر شامل ہیں جب کہ نحس اور نقصان دہ سیارگان میں راہو کیتو کے علاوہ زہرہ ، شمس اور زحل ہےں، مشتری اور مریخ نہایت باقوت پوزیشن رکھتے ہیں، البتہ قمر اور عطارد کمزور ہےں، عطارد اپنے برج ہبوط میں ہے ، راہو کیتو بالترتیب ساتویں اور پہلے گھر میں بیٹھے ہیں، طالع برج حوت اگر زائچے میں طلوع ہو تو مشتری اور مریخ کی باقوت پوزیشن صاحب زائچہ کو اسٹیٹس اور پیشہ ورانہ معاملات میں ایک کامیاب انسان بناتی ہے،چھٹے گھر کا حاکم سیارہ شمس کمزور ہو تو صحت قابل رشک نہیں ہوتی، قمر کی کمزوری زندگی میں مسائل کی زیادتی اور شدید نوعیت کے ذہنی دباو ¿ لاتی ہے،زائچے میں شمس اور قمر دونوں کمزور ہیں،سیارہ عطارد کچھ زیادہ ہی کمزور ہے کیوں کہ ہبوط یافتہ ہے، یہ صورت حال سائنس جیسے سبجیکٹ میں میتھ میٹکس کی کمزوری کے سبب پریشانی کا باعث ہوتی ہے،فاروق صاحب ڈاکٹر ہیں، یقیناً انہیں ایم بی بی ایس کرنے کے دوران میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا ہوگا لیکن عطارد کی یہ پوزیشن زبردست قسم کی اسپریچوئل پاور ڈیولپ کرتی ہے اور ایسے لوگ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں مگر ہم انہیں غیر معمولی طور پر ذہین نہیں کہہ سکتے،وہ اپنے کام میں ماہر ہوسکتے ہیں اور ہدایت کے مطابق عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں مگر اعلیٰ درجے کی قوت فیصلہ سے محروم ہوتے ہیں،سونے پر سہاگا یہ کہ طالع پیدائش برج حوت ایک ڈبل باڈی سائن ہے اور اپنی ماہیت کے اعتبار سے آبی ہے، اس برج کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد رومانوی، تخیلاتی ، بامروت اور فیاض ہوتے ہیں، لطف اندوزی اور حساسیت اس برج کا طرئہ امتیاز ہے،یہ لوگ خوش مزاج، ہمدرد خیال رکھنے والے ، فرض شناس، جذباتی، پُرجوش، آدرش وادی، وجدانی، اخلاقی قدروں کے حامل، صوفیانہ، فلسفیانہ، برداشت کرنے والے یا بزدل، غیر محفوظ اور آرام طلب ہوتے ہیں،فطری طور پر بے چین اور ہمیشہ حرکت میں رہنے والے،عطارد کی کمزوری کے سبب اچھے مشیر ثابت نہیں ہوتے، اگر عطارد مضبوط ہو تو بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، جناب فاروق ستار اپنے کردار و عمل میں کیسے نظر آسکتے ہیں اس کا اندازہ مندرجہ بالا خصوصیات کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
فطری میلانات
سیارہ قمر کسی بھی صاحب زائچہ کے فطری میلانات و رجحانات پر روشنی ڈالتا ہے اور مزید یہ کہ قمری منزل بھی فطری تقاضوں کی نشان دہی کرتی ہے،فاروق ستار صاحب کا قمر برج حمل میں ہے اور قمری منزل اشونی ہے،جناب عمران خان صاحب کا قمر بھی اسی پوزیشن پر ہے،دنیا کی دیگر مشہور شخصیات میں بھارتی صدر ذاکر حسین، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، برطانوی پرنس چارلس وغیرہ کے زائچوں میں بھی قمر کی پوزیشن یہی ہے۔
برج حمل اور اس کا حاکم سیارہ مریخ ڈائنامک خصوصیات کے حامل ہیں، ہمیشہ ایکشن میں رہنا اس برج کا خاصا ہے،یہ لوگ توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں،برج حمل منقلب اور آتشی برج ہے، اس طرح حوت اور حمل کا امتزاج ڈاکٹر صاحب کو ایک شعلہ و شبنم فطرت و شخصیت سے نوازتا ہے،مزاجی طور پر غصہ ور اور جلد اشتعال میں آنے والی فطرت یہاں موجود ہے،متحرک ، ہوشیار، سخت مزاج اور ممتاز رہنے کی خواہش نہایت شدت کے ساتھ برج حمل کا خاصہ ہے،ہمیشہ نمبر ون پوزیشن کی خواہش اور اس کے لیے کوشش و جدوجہد ، حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور ہوائی قلعے بنانے کا رجحان بھی قمر کی اس پوزیشن سے ظاہر ہوتا ہے،برج حمل قائدانہ صلاحیتیں بھی دیتا ہے، یہ لوگ اپنے اہداف حاصل کرلیتے ہیں۔
قمر کی اس پوزیشن کے منفی پہلوو ¿ں میں ہیجان، جارحیت، ضد، گھمنڈ جیسی خصوصیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،یہ ممکن ہے کہ زائچے کے کچھ دوسرے عوامل منفی پہلوو ¿ں کو کنٹرول کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں لیکن انہیں یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شخصیت و کردار اور فطرت سے متعلق اہم نکات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب زائچہ ایک اچھا بزنس مین ، صنعت کار، ڈاکٹر، ڈیلر، فوجی،پولیس مین،کرمنل کورٹ کا لائر، سیلزمین، میوزیشن تو ہوسکتا ہے لیکن ملک و قوم کی رہنمائی کا فرض ادا کرنا اس کے لیے خاصا مشکل ترین کام ثابت ہوسکتا ہے۔
جناب فاروق ستار نے 1987 ءمیں کوچہ ءسیاست میں قدم رکھا تھا اور وہ متحدہ قومی موومنٹ کے جھنڈے تلے ایک طویل کامیاب کرئر کے حامل ہیں،مندرجہ بالا تمام تجزیاتی عوامل کے پیش نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما رہے ہیں، اس طویل عرصے میں وہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے اور خراب وقتوں میں سخت حالات کا بھی سامنا کیا،قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،گزشتہ سال 22 اگست کے بعد ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کا آیا،وہ اس ذمے داری کو نبھانے میں کس حد تک کامیاب رہیں گے،اس کا اندازہ مستقبل میں ہونے والی سیاروی گردش سے لگایا جاسکتا ہے۔
زائچے میں راہو کا دور اکبر جاری ہے جس کی ابتدا 19 اکتوبر 2006 ءسے ہوئی،راہو کا تعلق سیاست سے ہے اور یہ زائچے کے چھٹے گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے،راہو کا دور 18 اکتوبر 2024 ءتک جاری رہے گا اور اس کے بعد سیارہ مشتری کا دور اکبر شروع ہوگا۔
راہو کے اس طویل دور میں فی الحال 19 اپریل 2017 سے کیتو کا دور اصغر چل رہا ہے،راہو کیتو ہمیشہ زائچے میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں اور عام طور پر انہیں منحوس تصور کیا جاتا ہے،اگر زائچے کے اچھے گھروں میں ہوں تو اچھی ٹرانزٹ پوزیشن میں بہتر نتائج بھی دیتے ہیں لیکن مجموعی طور پر صاحب زائچہ مختلف مسائل اور پریشانیوں میں گھرا نظر آتا ہے اور عموماً اس دور میں وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہو،چناں چہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں، 13 ستمبر 2017 ءسے سیارہ مشتری جو ان کے کرئر کا اہم ترین سیارہ ہے،زائچے میں ایک انتہائی خراب پوزیشن میں چلا گیا ہے اور آئندہ سال ستمبر تک اسی پوزیشن میں رہے گا، یہ صورت حال ڈاکٹر صاحب کے لیے ہر گز خوش کن نہیں ہے،انہیں پارٹی میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں اور سیاسی میدان میں اپنی حیثیت کو مضبوط اور نمایاں کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا رہے گا، اگر آئندہ انتخابات ستمبر 2018 ءسے پہلے ہوں تو ان کے لیے اپنی نشست برقرار رکھنا بھی مشکل ہوسکتا ہے،ایسا ہی خطرہ 2013 ءمیں بھی موجود تھا لیکن اس وقت مشتری کی پوزیشن زائچے میں موافق و مددگار تھی۔
عزیزان من!انشاءاللہ آئندہ پی ایس پی کے چیئرمین جناب سید مصطفیٰ کمال کے زائچے پر گفتگو ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں