پیر، 13 نومبر، 2017

نومبر، دسمبر ملک میں کسی ایمرجنسی کا امکان ظاہر کرتے ہیں

تیسری عالمی جنگ کے لیے میدان تیار ہورہا ہے، نئی صف بندی ہورہی ہے
جیسے جیسے کوئی اہم ترین تاریخی واقعہ اپنی رونمائی کے قریب ہوتا جاتا ہے، حالات کی تبدیلیاں بھی تیز تر ہوتی چلی جاتی ہیں، کچھ ایسی ہی صورت حال پوری دنیا اور پاکستان میں بھی نظر آرہی ہے۔
 ہم گزشتہ ایک سال سے اس امکان کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ 2019 ءمیں ہوگی اور 2016 ءسے دنیا میں ایسے واقعات کا ظہور شروع ہوچکا ہے جو متوقع عالمی جنگ سے کسی نہ کسی طرح پیوستہ نظر آتے ہیں، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی ، یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ اور اس کے نتیجے میں ایران عرب تنازع، شام کے حالات، داعش کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ اور پھیلاو ¿، افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات،چین کا سی پیک پروگرام، کوریا کا سخت رویہ اور ہائیڈروجن بم کا تجربہ، انڈوپاک کشیدگی میں اضافہ، پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال وغیرہ اور اس تمام منظر نامے کا پس منظر نہایت معنی خیز ہے۔
پاکستان میں اس سال پاناما کیس کا فیصلہ اور بعد ازاں سابق وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ جو اس وقت بھی ملک میں ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے،معاشی بحران، کرپشن کے خلاف عوامی غم و غصہ، مہنگائی کا طوفان اور ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار، کراچی میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار اور بھی بہت سے دیگر مسائل اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں، سیاسی پارٹیاں اپنی اہمیت کھورہی ہیں، لوگ عدالتوں یا فوج کی طرف دیکھنے پر مجبور ہورہے ہیں، جمہوریت ناپسندیدہ ہوتی جارہی ہے،ٹیکنو کریٹس حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے،ایک پرانا نعرہ ”پہلے احتساب اور پھر انتخاب“ دوبارہ گونج رہا ہے۔
کراچی میں گزشتہ سال سے ایم کیو ایم شدید انتشار اور خلفشار کا شکار ہے، پیپلز پارٹی سے لوگ پی ٹی آئی کی طرف جارہے ہیں، ن لیگ بھی ایک سے زیادہ گروپس میں تقسیم ہورہی ہے، قصہ مختصر یہ کہ ہونے کو تو بہت کچھ ہورہا ہے مگر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہر معاملے میں موجود ہے،زائچہ ءپاکستان کے مطابق نومبر دسمبر کے مہینے غیر معمولی حالات و واقعات کی نشان دہی کر رہے ہیں، 3 نومبر کے بعد سے صورت حال روز بہ روز سنسنی خیز ہوتی چلی جارہی ہے،نیب کورٹ میں کیسز کی سماعت، ریویو پٹیشن پر سپریم کورٹ کا سخت ترین فیصلہ، کراچی میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی مفاہمت اور علیحدگی ، الغرض یہ کہ ہر روز ایک نیا تماشا عبرت سامانی کا باعث بن رہا ہے،دسمبر کے پہلے ہفتے میں سندھ گورنمنٹ اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، 30 نومبر سے سیارہ مریخ زائچے کے چھٹے گھر میں داخل ہوگا تو پاکستان مزید تبدیلیوں کا شکار ہوگا، عدلیہ، بیوروکریسی اور ملٹری سے متعلق اداروں کے زیادہ فعال کردار کا مشاہدہ ہوسکے گا، یہ وقت کسی ایمرجنسی کی نشان دہی کر رہا ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔
بین الاقوامی تناظر میں صدر ٹرمپ کے تازہ دورے کو ایک غیر معمولی موومنٹ قرار دیا جارہا ہے،وہ شمالی کوریا سے مذاکرات کے لیے بھی تیار نظر آرہے ہیں، ساتھ ہی سعودی عرب میں بھی کرپشن کے خلاف ایک سخت کریک ڈاو ¿ن شروع ہوچکا ہے،ابھی 2017 ءاپنے اختتام کو نہیں پہنچا، 2018 ءکی آمد آمد ہے،دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں؟ نئے سال کے حوالے سے ہمارا تازہ آرٹیکل زنجانی جنتری 2018 ءمیں شائع ہوچکا ہے۔
خیالات اور احساسات کے دباو سے نجات 
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، فطرت کے تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیانک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات اور احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات و احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین ان جذبات و احساسات کے برہنہ اظہار پر معترض ہوتے ہیں، انہیں مخصوص حدودوقیود کا پابند کرتے ہیں تاکہ جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انہیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپاکی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات حالات اور ماحول کے جبر کی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے ، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے، وہ لکھتی ہیں۔
”خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اسی طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟“
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا، فرض عبادات کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان ہی زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انہیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں، یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات ”آزاد نگاری“ یا ”خود نویسی“ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں انہیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انہیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں، جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیز یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباو ¿ میں ہو، یہ دباو ¿ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر (اگر کسی جذباتی الجھن اور تناو ¿ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ءعلاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ”مشق تنفس و تصور“ بہترین ثابت ہوتی ہے(یہ مشق ہماری کتاب ”مظاہرنفس“ میں موجود ہے) اور طریقہ ءعلاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔
ش،الف، حیدرآباد سے لکھتے ہیں ” آپ نے نیلے دھاگے کا جو عمل دیا تھا وہ میں نے کیا، اس میں چراند بھی تھی اور چنگاری بھی تھی، میں نے بہت علاج کرایا ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، گھر کے تمام افراد دونوں وقت قرآن پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم محفوظ ہیں ورنہ دشمن ہمیں زیادہ نقصان دینا چاہتا ہے، اس میں اس کو کامیابی نہیں ہے لیکن کاروبار بند کردیا ہے“
برادرم! جب دھاگہ جلنے میں چراند اور چنگاری موجود تھی تو آپ کو یہ عمل پورے گیارہ دن تک اور اگر اس کے بعد بھی بو یا چراند باقی رہتی ہے تو کرتے رہنا چاہیے تھا تاوقت یہ کہ بو یا چراند نہ ختم ہوجائے، اس کے علاوہ بھی جو صدقات وغیرہ کا طریقہ لکھا تھا، اس پر بھی عمل کریں، پھر نتائج سے مطلع کریں، آپ نے اپنے حالات بھی زیادہ تفصیل سے نہیں لکھے کہ ان کی روشنی میں مزید مشورہ دیا جاسکے، اپنے دشمن اور اس سے دشمنی کی نوعیت کے بارے میں بھی کچھ نہیں لکھا، آپ جو پڑھائی وغیرہ مسلسل کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کی ہے؟ بہتر ہوگا کہ مکمل تفصیلات کے ساتھ خط لکھیں۔
ایس، اے لکھتی ہیں ” مجھے 16 سال کی عمر سے چکر آتے ہیں اور یہ مسلسل رہتے ہیں، چکر اس طرح شروع ہوئے تھے کہ ایک دن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ بیٹھے بیٹھے اچانک ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اوپر سے نیچے تک میری جان کھینچ لی اور پھر چکر آنے لگے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زمین نیچے کو دھنس رہی ہو اور کبھی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زمین چل رہی ہو، لیٹے بیٹھے کھڑے ہر طرح سے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا، اب بھی کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے جان کھینچ لی ہو، پورے جسم میں درد رہتا ہے اور کھڑی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ گر جاو ¿ں گی، نہ ہی کوئی کام کیا جاتا ہے اور اس کیفیت کی وجہ سے عبادت میں بھی دل نہیں لگتا، دیکھنے میں بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحت مند لگتی ہوں لیکن اندر سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں بالکل خالی ہوں، کھوکھلی ہوں جیسے اندر سے کوئی دیمک لگی ہوئی ہے، ہر وقت بے چینی اور بے سکونی رہتی ہے، ہر طرح کا علاج کروالیا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، پورے جسم کا ایکسرے ہوا، ہر طرح کے ٹیسٹ بھی ہوچکے ہیں، سب کلیئر ہیں، کوئی بیماری نہیں ہے، بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے لیکن چکر مسلسل رہتے ہیں، مہربانی فرماکر میرے مسئلے کو حل کریں“۔
جواب: عزیز بہن! آپ کا علاج درست نہیں ہوا، نہ ہی تشخیص درست ہوسکی ہے، ایلوپیتھک طریقہ ءعلاج میں تو ویسے بھی ایسے کیسوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی جہاں تمام ٹیسٹ کلیئر ہوں، اگر آپ نے ہومیو پیتھک علاج بھی کرایا ہے تو ڈاکٹر مناسب نہیں تھا ورنہ آپ ٹھیک ہوجاتیں، آپ بہتر ہوگا کہ براہ راست رابطہ کریں، باقی یہ وہم دل سے نکال دیں کہ آپ پر کوئی سحر یا ماورائی اثرات ہیں جو آپ کو پریشان کر رہے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں