ہفتہ، 15 جولائی، 2017

عرفانِ ذات اور ارتکاز خیال کی نئی اقلیم


محبت اور شادی؟ عشق کی آگ کا روحانی علاج
اس پر ہنگام اور پر آشوب زندگی اور مشینی ماحول میں جہاں ہم محض ضروریات زندگی بہم پہانے کی مشین بن چکے ہیں وہیں ہم اپنے آپ سے بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں یعنی اپنے آپ سے، اپنی ذات کے نقطہ ءاصل سے اور اس وجہ شرف سے کہ جس کی بناءپر آج نوع انسان کا سر فکروشعور کے تاج سے مزین ہے اور اس کی روح جذبہ و احساس کی خلعت فاخرہ میں ملبوس۔
اصول یہ ہے کہ کسی شے کا ورائے ادراک ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا مثلاً کشش ثقل کائنات کے ابتدائی حقائق میں سے ہے لیکن وہ مشہور سائنس داں آئزک نیوٹن کے دور میں دریافت ہوئی اسی طرح پیراسائیکالوجی کی اصطلاح گو نئی صحیح مگر اس کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا حضرت انسان کا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی پیراسائیکولوجی کی ہی وجہ سے قید عدم سے آزاد اور شرف انسانی سے ممتاز ہوا۔
آج خواص اور علماءکے علاوہ ایک عام ذہن بھی پیرا سائیکولوجی یعنی مابعد النفسیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے بارے میں مشتاق ہے جو کہ بجائے خود ایک حیرت انگیز امر ہے ،آپ نے غور کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
تفکر کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے اور اسی کلّیے کے تحت آج ہم اس علم میں دلچسپی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ یہ علم ہماری فطرت میں شامل، ہماری ذات کا اصل اور ہماری جسمانی اور دماغی موشگافیوں کے پس پشت کار فرما توانائی ہے ، یہ رشتے کی ایک ایسی زنجیر ہے جس میں تمام مخلوق باہم اور خاندان کی طرح پروئی ہوئی ہے، پیراسائیکولوجی کا طالب علم کائنات میں موجود یا کار فرما اس ربط کو پالیتا ہے جو اس تمام نظام کو مربوط رکھتا ہے اور اس کی نظر موجودات کی تمام انواع کے اصل مقصد تخلیق پر جاٹھہرتی ہے۔
مذکورہ بالا معروضات پر مزید تفصیلی بحث کرنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ پیراسائیکولوجی کی تعریف کیا ہے ، یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ علم اتنا جامع اور کثیر الجہات ہے کہ اس کی ہر ہر جہت ایک مکمل اور مبسوط تعریف کی متقاضی ہے ، اس کا ہر رخ معنی کی ایک نئی دنیا سمیٹے ہوئے ہے اور اس کا ہر زاویہ اپنے اندر آگہی کا ایک نیا جہاں بسائے ہوئے ہے یہاں اس شبہے کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ پیراسائیکولوجی جدید زندگی یا سائنس کی ترقی کے خلاف ہے ، کوئی بھی سائنس ہو، علمی کام ہو یا دماغی کاوش یہ سب ذہنی ارتکاز کے مرہون منت ہیں، خیال کی یہی گہرائی اور ارتکاز پیراسائیکولوجی کہلاتا ہے جس کا اردو ترجمہ مابعدالنفسیات ہے۔
آئیے اب اس کی تعریف مختلف جہات کے حوالے سے کرتے ہیں تاکہ اس کا مفہوم کھل کر سامنے آسکے اور عوام اسے نہ صرف پوری طرح سمجھ سکیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرسکیں جو کہ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔
عام فہم اور مروجہ اصطلاح میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں علم نفسیات کی انتہا ہوتی ہے وہیں سے پیراسائیکولوجی کی لافانی مملکت کا آغاز ہوتا ہے گویا ہمارے تمام شعوری اور لاشعوری رویے اور تحریکات اور وظائف زندگی بالواسطہ طور پر پیراسائیکولوجی کے تحت سر انجام پاتے ہیں، گہرائی میں دیکھا جائے تو انسان حواس ہی کا نام ہے یا ہم حواس ہی کی وجہ سے انسان ہیں ، ذرا سوچیے ! اگر ہم سے ہمارے حواس چھین لیے جائیں تو ہماری حیثیت کیا رہ جائے گی؟ لمس و احساس، نطق و بیان، فکروشعور اور آگہی و ادراک ہم ان ہی کا مجموعہ و مرکب تو ہیں۔
ہمارے اندر اس حواس یا ادراک کی دس قوتیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے پانچ ظاہری ہیں اور پانچ باطنی، ہمارے ظاہری حواس قوت سامعہ (سننے کی قوت) قوت لامسہ (چھونے اور محسوس کرنے کی قوت) ،قوت باصرہ (دیکھنے کی قوت)،قوت شامہ (سونگھنے کی قوت) اور قوت ذائقہ ہیں جب کہ ہمارے باطنی حواسوں میں حس مشترک، خیال، وہم، حافظہ اور متصرفہ ہیں، باطنی حواسوں میں حس مشترک وہ حس ہے جو حواس خمسہ ظاہری میں منقوش اور مرتسم ہونے والے تمام محسوسات کو قبول کرلیتی ہے۔
وقت پیدائش ہی سے چوں کہ ہم ایک مخصوص ماحول میں پرورش پاتے ہیں اس لیے ہمیں صرف شعوری اور ظاہری حواس ہی کا ادراک و تجربہ ہوپاتا ہے اور ہم اپنے باطنی حواسوں کے فہم و ادراک سے محروم رہتے ہیں،اس کے نتیجے میں ہمیں اپنی باطنی صلاحیتوں کا شعور کبھی حاصل نہیں ہوتا اور جب یہ باطنی صلاحیتیں کچھ مخصوص حالات کے تحت ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم چکرا کر رہ جاتے ہیں،ہمارا ذہن فوراً کسی ماورائی پراسرار قوت کی طرف چلا جاتا ہے جو ہمارے خیال میں ہمارے معاملات میں مداخلت کر رہی ہوتی ہے،خاص طور پر ایسی صورت حال اکثر نہایت حساس خواتین کے ساتھ پیش آتی ہے،بعض موقع پر چھوٹے بچے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں والدین یا دیگر اہل خانہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ پراسرار صورت حال پیدا ہورہی ہے لہٰذا فوری طور پر مولویوں، پیروں یا عاملوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور پھر جو کچھ ہوتا ہے،وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عزیزان من! اپنی پوشیدہ باطنی قوت کے حادثاتی ظہور کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں پیراسائیکولوجی تو کیا لوگ سائیکولوجی سے بھی واقف نہیں ہیں، وہ عام طور سے ہر پیچیدہ اور پراسرار معاملے کو کسی نہ کسی قسم کی ماورائیت سے جوڑ بیٹھتے ہیں، انہیں سحری اثرات، جنات و مو ¿کلات کا شبہ شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں موجود نام نہاد عاملوں، پیروں اور فقیروں نے اپنے دھندے چمکانے کے لیے اسی قسم کی باتیں پھیلا رکھی ہیں۔
اپنی ذات یا اپنی باطنی یا پوشیدہ بے پناہ قوت سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں پیراسائیکولوجی کا سہارا لینا ہوگا ، گویا پیراسائیکولوجی ہمیں اپنی ذات میں موجود اس قوت کی آگہی بخشتی ہے جس کے سامنے موجودہ سائنسی ترقی اپنے تمام تر کمال کے باوجود حقیر نظر آتی ہے۔
اگر ہم مذہبی اور روحانی نقطہ ءنظر سے دیکھیں تو ہم پیراسائیکولوجی کی تعریف یوں کریں گے کہ ارتکازیا مراقبے کے ذریعے ذات کا عرفان اور تخلیقی قوت کے حاصل کرنے کا نام پیراسائیکولوجی ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی حلقے جس قوت کو روح اور ارباب فلسفہ جیسے ذہنی طاقت کا نام دیتے ہیں، اس قوت کے تخلیقی استعمال پر عبور حاصل کرنے کے طریقے کو پیراسائیکولوجی کہتے ہیں۔
پیراسائیکولوجی کی مختصر تعریف کے بعد آئیے ذرا ان روایتی اور غیر روایتی طریقوں پر روشنی ڈالیں جن کا اس سے گہرا تعلق ہے۔
یہاں اس بات کا بیان غیر ضروری نہ ہوگا کہ علم نفسیات اس بات پر مصر ہے کہ ہمیں صرف اسی بات کا ادراک ہوسکتا ہے یا کوئی شے ہمارے لیے موجود اس وقت ہوگی جب ہمارے ظاہری حواس مثلاً شامہ، باصرہ، سامعہ، لامسہ اور ذائقہ وغیرہ ہمیں اس کا احساس دلانے کا ذریعہ بنیں، با الفاظ دیگر ہمارے ظاہری حواس کا دائرہ کار جتنا وسیع ہوگا بس وہی ہماری کائنات ہے، یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے صاحب وجد ان لوگوں کی رسائی پیراسائیکولوجی تک ہوئی اور اس کی حدود اور دائرئہ کار علم نفسیات سے بلند ہوگیا کیوں کہ یہ بات تجربے میں ہے کہ ہمارے ظاہری حواس اکثر ہمیں دھوکا دیتے ہیں مثلاً سانپ کا ڈسا ہوا تلخی کو شیریں محسوس کرتا ہے، مٹھائی کھانے کے بعد چائے پھیکی محسوس ہونے لگتی ہے، سراب اور مالیخولیا یا شیزوفرینیا کے مریضوں کا فرضی شخصیات سے ملنا اور خیالی حالات و واقعات کا دیکھنا اور ان سے متاثر ہونا ہمارے ظاہری حواس کے فریب کھانے کی نشانیاں ہیں۔
پیراسائیکولوجی کا علم ظاہری حواس کی نفی نہیں کرتا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے اور نفسیات کے نقطہ ءنظر میں فرق یہ ہے کہ نفسیات کی رو سے یہ حواس نقطہ آخر ہیں جب کہ پیراسائیکولوجی انہیں نقطہ اول قرار دے کر ایسی مخفی اور طاقت ور صلاحیتوں کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے جو حواس خمسہ کی مدد کے بغیر بھی انسان کو علم یا ادراک بخشتی ہے، ایسا ادراک جس کی گہرائی نامعلوم اور ایسا علم جس کی وسعت لامحدود ہے۔
روز مرہ کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی تمام زندگی میں کبھی کبھی ایسی نفسیاتی یا جذباتی کیفیت سے ضرور دوچار ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن کو عام سطح سے بلند کرکے ہمیں اپنی ذات میں موجود نامعلوم قوتوں اور پر اسرار گوشوں سے متعارف کراتی ہے، گو وقتی طور پر ہی سہی اس کیفیت پر شعوری اور اختیاری عبور حاصل کرنا اور پھر اسے فلاح انسانی یا کم از کم فلاح ذات کے لیے استعمال کرنا پیراسائیکولوجی کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
اکثر خطوط میں یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ہمارا خط شائع نہ کیا جائے‘ صرف جواب دے دیا جائے یا مسئلے کا حل لکھ دیا جائے‘ عام نوعیت کے مسائل میں ہم اس فرمائش کی پابندی کرتے ہیں یعنی صرف جواب دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی اشاعت سے دیگر پڑھنے والے بھی سبق حاصل کرتے ہیں اور ہمارے جواب سے وہ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں پھر بھی ہم اس بات کا از حد خیال رکھتے ہیں کہ خط بھیجنے والے کا اصل نام و مقام پوشیدہ رہے یا انتہائی نجی نوعیت کی باتیں شائع نہ ہوں‘ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ یا خط شائع نہ بھی کیا جائے تو جواب سے مسئلے کی نوعیت کا پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجاتا ہے۔
آج ایک ایسا مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے جو ہماری بے شمار بیٹیوں کا مسئلہ ہے یعنی پسند کی شادی‘ یہ مسئلہ معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار اور ضروریات زندگی کی عدم فراہمی کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کررہا ہے۔
محبت و شادی
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لڑکیوں کو اپنی شادی کی کوئی فکر نہ ہوتی تھی‘ وہ اپنے خاندان میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہم جولیوں کے سنگ گڑیوں سے کھیلتی جو ان ہوجاتی تھیں اور پھر انہیں اچانک ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کی شادی طے ہوگئی ہے پھر وہ چپ چاپ ازدواجی بندھن میں بندھ کر پیا گھر سدھار جاتی تھیں مگر اب صورت حال بالکل بدلتی جارہی ہے، اقتصادی مسائل نے معقول رشتوں کو نایاب کردیا ہے‘ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہر لڑکی اور اس کے والدین کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ کوئی مناسب رشتہ جلد از جلد مل جائے۔
دوسری معاشرتی تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ وہ لڑکیاں جو کبھی گھر سے باہر بھی قدم نہیں رکھتی تھیں، اب کالج اور پھر ملازمت کے میدان میں آکر اپنی شادی کے مسئلہ پر خود مختارانہ غور و فکر کرنے لگیں‘ ساتھ پڑھنے والے لڑکے یا ساتھ کام کرنے والے افراد سے پسند و ناپسند کے معاملے زیر غور آنے لگے اور نتیجے کے طور پر پسند کی شادی کے نت نئے مسائل بھی سامنے آنے لگے اورباہم ایک دوسرے کو پسند کرنے والے لڑکا لڑکی جو باہمی شدید محبت کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں، غالب کی زبان میں یہ سوچنے لگے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں محبت کرنے والوں کے معاملات عشق و شادی کا مشاہدہ کرچکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔
ہر دو فریقین کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے مگر جب ہم انہیں علم نجوم کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو اکثر کا یہ دعویٰ غلط نظر آتا ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری وجوہات کی بنا پر یا حالات کے تحت ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور قریب ہوتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ ایک دوسرے کی قربت کے عادی ہوگئے لیکن حقیقی معنوں میںان کے مزاج و فطرت میں ہم آہنگی نہیں ہے یعنی وہ محبت کے حقیقی جذبے سے محروم ہیں‘ اس لیے ان کا سارا زور صرف شادی پر ہوتا ہے، وہ محبت کے عظیم ولافانی جذبے کی معراج شادی کو سمجھتے ہیں‘ ایسے افراد کی جب شادی ہوجاتی ہے تو پھر رفتہ رفتہ مزاجی اور فطری تضادات ابھر کر سامنے آنا شروع ہوتے ہیں اور محبت و پسند کی شادی ایک ناکام ازدواجی زندگی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شادی نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریقین نہ صرف اپنی زندگی کو عذاب بنائے بیٹھے رہتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی مسائل و پریشانیاں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ گھر والے جہاں ان کی شادی کرنا چاہتے ہیں وہاں شادی کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے‘ جہاں وہ شادی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہاں گھر والے راضی نہیں ہوتے‘ اس کشمکش میں عمر عزیز کے قیمتی سال گزرتے چلے جاتے ہیں شادی کا بہترین وقت ضائع ہوجاتا ہے اور پھر نفسیاتی و جسمانی امراض ایسے افراد کی زندگی میں وہ زہر گھولتے ہیں جن کا تریاق عمر بھر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
اس ساری صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان دونوں فریقین میں لڑکی کو اٹھانا پڑتا ہے‘ لڑکیاں عموما زیادہ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں‘ وہ اس قسم کے تعلقات کا بہت گہرا اثر قبول کرتی ہیں‘ وہ جب کسی کو اپنے شریک حیات کے طور پر ذہن و دل سے قبول کرلیتی ہیں تو پھر کسی دوسرے کا خیال بھی اپنے دل میں لانا نہایت معیوب اور گناہ سمجھ لیتی ہیں‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس شخص سے واقعی حقیقی محبت کررہی ہوتی ہیں بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس تعلق کو اپنی نسوانی انا کا مسئلہ بھی بنالیتی ہیں کیوں کہ بعض کیسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے سمجھانے اور فریق ثانی کے نامناسب انداز و رویوں سے دل برداشتہ ہونے کے باوجود ان کی ضد یہی ہوتی ہے کہ اس سے شادی ضرور کروں گی‘ خواہ بعد میں کچھ بھی ہو۔
ان مسائل کے بے شمار پہلو ہیں‘ اگر بیان کرنے بیٹھ جائیں تو کبھی ختم نہ ہوں۔ اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ خدارا محبت کے اس پر فریب جال میں پھنس کر زندگی کو برباد نہ کریں‘ جذباتی انداز فکر عارضی طور پر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر زندگی کا کوئی مسئلہ اس کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا‘ محبت یقینا ایک عظیم اور قابل قدر جذبہ ہے مگر محبت ہے کیا؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ آداب کیا ہیں؟ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محبت کی معراج شادی نہیں ہے‘ شادی کی معراج محبت ہے‘ محبت تو قربانی کا دوسرا نام ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ آج کل کے محبت کرنے والے قربانی دینے کے بجائے دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اپنی تمام روایات ‘تمام حقوق، تمام آرزوئیں قربان کردیں‘ ورنہ یہ محبت کرنے والے اپنی ایک ذاتی خواہش کے پورا نہ ہونے پر ساری دنیا کو ظالم قرار دے کر ہر رشتے ناطے سے منہ موڑ لیں گے۔
ممکن ہے ہمارے بعض قاری اس موقع پر یہ اعتراض کریں کہ جناب آپ کو کیا معلوم کہ محبت کیا ہے؟ یہ ایک بے اختیاری جذبہ ہے‘ اس کے سامنے انسان بے بس ہے‘ ہم ان کی اس بات سے یقینا اتفاق کریں گے مگر جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ اس جذبے کو پرکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ صادر کیا جانا مناسب ہوگا اور پرکھنے کا آسان سا اصول ایک ہی ہے یعنی دونوں طرف قربانی کا جذبہ کتنا ہے اور خود غرضی کا مظاہرہ کس قدر ہے‘ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب جذبے واقعی سچے ہوں تو ایسے لوگوں کی ہر مشکل آسان ہوتی چلی جاتی ہے لیکن فی زمانہ مشاہدہ میں جو بات زیادہ آرہی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں فریقین کے جذبے عموما خام ہوتے ہیں‘ خصوصا اس معاملے میں لڑکوں کا کردار زیادہ مشکوک ہوتا ہے وہ لڑکی کی خاطر کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ لڑکیاں جذبات کی رو میں بہہ کر ہر مرحلے سے گزرنے کو تیار ہوجاتی ہیں‘ ہمارا مشورہ ایسی لڑکیوں کے لیے یہی ہے کہ وہ ایسے محبت کے دعوے داروں سے ان کی محبت کا عملی ثبوت ضرور طلب کریں کہ وہ اپنے زبانی وعدوں اور اظہار محبت سے ہٹ کر ان کے لیے کوئی عملی کام کرکے دکھائیں ۔مرد ہونے کے ناطے ان کے لیے شادی کی کوشش کرنا زیادہ آسان کام ہے‘ اپنے گھر والوں کو راضی کرنا اور پھر لڑکی والوں کے گھر بھیجنا ان کی اولین ذمہ داری ہے‘ اگر وہ یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر ان کا جنون محبت یقینا لڑکی کو بے وقوف بناکر اپنی تفریح کا ذریعہ بنانا ہے اور کچھ نہیں۔
اگر وہ یہ کارنامہ انجام دے لیتے ہیں اور اس کے بعد لڑکی کے گھر والے راضی نہیں ہوتے تو کم از کم ان کی محبت پر شک کی گنجائش نہیں رہے گی‘ بہر حال جو بھی صورت ہو‘ شادی ہوسکے یا نہ ہوسکے محبت کے جذبے کا عملی اظہار فی زمانہ ضروری ہے‘ اس کے بغیر لڑکیوںکو اپنی عمر کے قیمتی سال داﺅ پر نہیں لگانے چاہیے ورنہ اس غلطی کا بھیانک خمیازہ انہیں ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں