اتوار، 2 جولائی، 2017

بنیادی انسانی حقوق کی پامالی،معاشرے کی نفسیاتی گھٹن

انسانی حقوق کے بارے میں بات تو کی جاتی ہے مگر محض سیاسی نعرے بازی کے طور پر
جون میں سیاسی صفحوں میں زیادہ ہلچل اور سرگرمی نظر نہیں آئی، شاید احترام رمضان کا خیال اہل سیاست کو رہا ہوگا لیکن یہ ظالم مہینہ پارا چنار اور احمد پور شرقیہ جیسے سانحات کا باعث بنا، پارا چنار میں تاحال متاثرین کا دھرنا جاری ہے،راستوں کی بندش کے سبب جنرل باجوہ وہاں نہیں جاسکے، دیگر سیاسی رہنما بھی وہاں جانے کی ہمت نہیں کرسکے، احمد پور شرقیہ میں جو کچھ ہوا، وہ نہایت خوف ناک اور کرب ناک ہے، مصائب و مشکلات کا شکار لوگ چھوٹے چھوٹے سے فائدوں کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں اور کسی خطرے کی پروا نہیں کرتے، کچھ ایسا ہی احمد پور شرقیہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے، میڈیا کا دباو ¿ اس قدر بڑھا کہ وزیراعظم کو فوری طور پر لندن سے واپس آنا پڑا، متاثرین کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا گیا ہے، نہایت افسوس ناک صورت حال یہ تھی کہ قریب ترین کسی اسپتال میں کوئی برننگ سینٹر موجود نہیں تھا، ملتان کے نشتر اسپتال میں چودھری پرویز الٰہی کی نشانی کے طور پر ایک سینٹر دستیاب ہوا، کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو صحت و زندگی کے یہ مسائل نظر نہیں آتے، ان کی نظر میں صرف گرین اور اورنج لائن منصوبے ہی عوام کے لیے ضروری ہیں؟ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے ہی منصوبے ، منصوبہ سازوں کے لیے فائدہ بخش ہےں، قصہ مختصر یہ کہ رمضان المبارک کا انعام عیدالفطر پاکستانی عوام کو لہو لہو میسر آیا۔
جولائی کا آغاز ہورہا ہے اور گزشتہ کالم میں ہم اس ماہ کی سختیوں اور سفاکیوں کی نشان دہی کرچکے ہیں، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں پاناما کیس اور جے آئی ٹی کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہورہا ہے،بظاہر حالات وزیراعظم کے خلاف نظر آرہے ہیں، نا اہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے مگر کیا وہ آسانی سے یہ سب برداشت کرلیں گے؟ماضی کی تاریخ تو خاصی سنگین ہے ، اس بار دیکھیے کیا ہوتا ہے، کوئی نئی تبدیلی ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے یا بدتر؟
اگرچہ تبدیلیاں ہمیشہ ترقی کے راستے کا زینہ ہوتی ہیں بشرط یہ کہ انسان مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہو لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ تبدیلیاں لائی جائیں تو وہ مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوں گی لیکن ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات اور اقدام کے بارے میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ مثبت راستے پر ہے اور دوسرے منفی راستے پر چل رہے ہیں،یہ سوچ اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ پھر دوسروں کی رائے یا نظریات کو جاننے اور اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اختلافی مسائل کو اس قدر حساس بنادیا جاتا ہے کہ ان پر بات کرنا بھی مشکل ہوجائے، نتیجے کے طور پر اختلافی موضوعات ایک ناسور بنتے چلے جاتے ہیں اور ان میں بدبودار مواد اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے،اگر ایسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی رہے اور مختلف نکتہ ہائے نظر سامنے آتے رہےں تو کوئی مسئلہ پیچیدگی کا شکار نہ ہو۔
ہم مغرب کی برتری اور ترقی کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی مغربی معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتے بلکہ بہ حیثیت مسلمان ہم نے ایک کافر اور مشرک معاشرے کی خامیوں اور برائیوں کو نمایاں کرنے کا کام پوری تندہی سے اپنے ذمے لے رکھا ہے تاکہ عام مسلمان ان کے فریب میں نہ آئےں، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی انسانیت سوز برائیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ان پر نہایت اعلیٰ سطح تک ہر مفاد و مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر گفتگو کی جاتی،ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف خاموشی ہو، کسی نہ کسی حد تک اہل علم اور دانش ور حضرات حسب توفیق ایسے موضوع پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی آواز سدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔
سب سے اہم معاملہ ہمارے ملک و معاشرے میں انسان کے بنیادی حقوق کا ہے جو بری طرح کچلے جارہے ہیں ، ان حقوق کے بارے میں بات تو کی جاتی ہے مگر محض سیاسی نعرہ بازی کے طور پر ، عملی طور پر ان حقوق کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ جدوجہد ہوتی نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ اہل سیاست پر سے عام لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور کوچہ ءسیاست کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، آج یہ صورت حال ہے کہ ہر شخص سیاست دانوں کو برا کہہ رہا ہے اور جمہوری نظام پر لعنت بھیج رہا ہے،جمہوریت کسی طور بھی بری چیز نہیں لیکن ہمارے اہل سیاست نے اسے جس انداز میں پیش کیا ہے،وہ جمہوریت کے لیے بھی بدنامی کا باعث ہے،عوام نے سمجھ لیا ہے کہ سیاسی بازی گری کی منزل مقصود صرف اور صرف حصول اقتدار ہے ، عوامی مسائل کا حل نہیں۔
جب ملک میں آمریت ہوتی ہے تو تمام سیاست داں جمہوریت کے خوش گوار گیت گاتے نظر آتے ہیں، یہ گیت تو بہر حال اب بھی گائے جارہے ہیں مگر بے اثر ہیں کیوں کہ عوام تک حقیقی جمہوریت کے فوائد نہیں پہنچ رہے لہٰذا انہیں جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا، ایسی ہی صورت حال میں جب فوج مداخلت کرتی ہے تو عوام ان کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں اور مٹھائیاں باٹتے ہیں تو کیا ہمارے سیاست داں حالات کو ایسی ہی کسی جانب لے جارہے ہیں ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں