ہفتہ، 14 جنوری، 2017

خوف اور یقین....دو متضاد اور برسرِ پیکار قوتیں

دماغ کی دنیا میں خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ
خوف، ڈر، وسوسے اور اندیشے کے حوالے سے پہلے کچھ باتیں آپ کے گوش گزار کی تھیں، اکثر خطوط اور ای میلز میں اس موضوع پر اظہار خیال کو بہت پسند کیا گیا اور فرمائش کی گئی کہ اس سلسلے میں مزید پیش رفت کی جائے کہ یہ آج کے دور کا اور اکثر مسائل کے شکار افراد کا مشترکہ عذاب ہے۔
 ہمارے اکثر مسائل کسی نہ کسی قسم کے خوف کی وجہ سے ہی جنم لیتے ہیں لہٰذا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خوف، ڈر، وسوسوں اور اندیشوں سے کیسے چھٹکارا پائے اور وہ چھٹکارا پا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ وہ کون سی قوت ہے جو انسان کو اس موذی سانپ سے محفوظ رکھ سکتی ہے، آئیے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
انسانی ذہن ایک نہایت ہی عجیب شے ہے، یہ ہر لحاظ، ہر لمحہ نت نئی کیفیات کا شکار ہوتا رہتا ہے اور ان کیفیات کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہتی ہے، پل پل رنگ بدلتی ہوئی ان کیفیتوں میں کبھی بھی ہم آہنگی نہیں رہتی بلکہ یہ متواتر ایک دوسرے کا اثر زائل کرنے میں مصروف رہتی ہیں، ان میں کبھی ایک ہم پر غالب آجاتی ہے تو کبھی دوسری پہلی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتی ہے، ان کیفیات کی یہ جنگ ہار اور جیت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اسی بار جیت کے درمیان انسان زندگی گزارتا چلا جاتا ہے اور مختلف مواقع پر مختلف کیفیات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔”موڈ“ کا لفظ بھی درحقیقت انہی کیفیات کے بدلتے رہنے کا نام ہے تاہم وہ دو بڑی قوتیں جو ان کیفیات میں تبدل و تغیر کا سبب بنتی ہیں، ان کو اپنے اشارے پر چلاتی، انہیں آگے بڑھاتی اور پیچھے ہٹاتی ہیں، وہ خوف اور یقین ہیں، اب یہی ہمارا موضوع بحث ہیں۔
خوف اور یقین کی ہمارے ذہن پر قابضانہ کوششوں کو ہم ماضی میں امریکا اور روس کی دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں سے تشبیہہ دے سکتے ہیں، یہ دونوں ملک دنیا بھر میں اپنے اپنے اتحادی رکھتے تھے، انہیں ہر قسم کی امداد اور رہنمائی مہیا کیا کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر انہی اتحادیوں کے ذریعے دوسرے بلاک کے ممالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے، یوں دنیا کی بساط پر مہرے تو بہت سے متحرک نظر آتے تھے مگر انہیں متحرک صرف دو ہاتھ ہی کرتے تھے۔
دماغ اور کامیابی کا راز 
دماغ کی دنیا میں بھی خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ جاری رہتی ہے لیکن ان میں ایک فریق اپنے اتحادی کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے شعوری اور لاشعوری طور پر تباہ و برباد کرکے ہی دم لیتا ہے، یہ اندر ہی اندر اپنے اتحادی کے وجود میں دراڑیں ڈالتا ہے، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایک معمولی سے واقعے پر اس کے اتحادی کا وجود محض ایک ہلکے سے جھٹکے سے ہی زمین بوس ہوجاتا ہے، یہ پہلا فریق”خوف“ ہے اور اس پر کسی فرد کا حد سے بڑھا ہوا انحصار اسے کہیں کا بھی نہیں رہنے دیتا۔
دوسرے فریق کا نام یقین، اعتماد اور ایمان ہے، یہ خوف کے بالکل برعکس اثرات رکھتا ہے اور اپنے اتحادی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہر موقع کے لیے تیار کرتا ہے۔ ”یقین“ ایک طرح کا پاور جنریٹر ہے جو چوبیس گھنٹے توانائی پیدا کرکے اپنے اتحادی کو سپلائی کرتا ہے تاکہ اس پر زندگی کی مقدار زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے۔ اگر کوئی اپنے یقین پر مکمل انحصار کرتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کامیابی اور ناکامی کے درمیان فاصلہ متعین کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی اور موت کے درمیان بھی حدِّ فاضل مقرر کردیتا ہے، غرض ایک شخص کا کامل یقین اسے آسمانوں سے بھی بلند کرسکتا ہے اور خوف جیسے موذی اژدھے کے مقابل فتح سے ہم کنار کرسکتا ہے، یوں تعمیری اور تخریبی قوتوں کے درمیان اس نمایاں فرق کو سمجھنے کے بعد آپ کے لیے یہ بات اخذ کرنی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کے یقین میں ہی آپ کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
علاج آپ کے پاس
 اگر آپ اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھرپور اور فتوحات سے لبریز اور آسائشوں سے مالا مال دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ پر یقین رکھیے اور جان لیجیے کہ آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں، آپ اگر خوف زدہ بھی ہیں تو کوئی بات نہیں، اس لیے کہ آپ کا علاج آپ کے اپنے پاس موجود ہے، آپ اپنے یقین سے ہر خوف کو شکست دے سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آپ یہ راز جانتے ہوں کہ یقین کو کس طرح خوف پر غالب کیا جاتا ہے، اسے کس طرح خوف کے سدِّباب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
 یقین اور خوف کے درمیان کش مکش کی سب سے عمدہ مثال ہمیں پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والے اس شخص کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئے گی جو فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے، اگر ایک لمحے کے لیے بھی اس کا یقین متزلزل ہوجائے اور یہ خوف دل میں گھر کرلے کہ چھلانگ لگانے کے بعد پیراشوٹ نہیں کھلے گا تو وہ کبھی نیچے کودنے کی جرا ¿ت نہ کرے مگر اسے پیراشوٹ پر کامل یقین ہوتا ہے کہ وہ چھلانگ لگانے کے بعد اسے بخیروعافیت زمین تک پہنچادے گا۔بس یہی یقین اسے ہزاروں فٹ بلندی سے کود کر ایک کارنامہ انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔
خوف اور یقین کی اس ہزاروں فٹ بلند مثال سے آپ یقینا یہ بات جان چکے ہوں گے کہ خوف محض وہم، عدم اعتماد، کمزوری اور ارادے کے فقدان کی بنا پر ہی جنم لیتا ہے، جب کسی فرد کو اپنے اوپر بھروسا نہیں رہتا تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور خوف کی بھرپور گرفت میں کوئی کام بھی درست طریقے پر انجام نہیں دے پاتا، نتیجتاً ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے اور زندگی ایک عذاب ہوکر رہ جاتی ہے، ایسے افراد عموماً پھر اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں یا پھر دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا الزام دھرتے ہیں۔
خوف زدہ افراد
ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ خوف کی ایک سو ایک اقسام باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ہیں تاہم ان اقسام کی بھی بے شمار طفیلی قسمیں ہیں، ایسے ہی جیسے کسی درخت کی بے شمار چھوٹی چھوٹی شاخیں، خوف کی یہ چھوٹی چھوٹی اقسام بھی اپنی جگہ منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے اثرات کسی فرد کی شخصیت پر ایک مکمل بیماری سے کم نہیں ہوتے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا یا اگر انہیں اپنے خوف کے بارے میں معلوم بھی ہوتا ہے ، تب بھی وہ اس کے تدارک کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے، وہ خوف کے ماخذ کا سراغ نہیں لگاتے، ان وجوہات کو تلاش نہیں کرتے جن کی بنا پر ان میں کسی شے یا خیال کے بارے میں خوف کے احساس نے جنم لیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ اسی خوف کے سائے میں ساری زندگی گزاردےتے ہیں اور اپنی شخصیت کو تباہ کرلیتے ہیں۔
خوف سے نجات پانے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ وہ کس شے سے خوف زدہ ہے؟ خوف کی وجہ کا تعین ہی دراصل اس بیماری کا نصف خاتمہ ہے، درحقیقت بیشتر خوف زدہ افراد غیر ارادی طور پر انجانے میں ہی اس بیماری کو اپنے اندر پالیتے ہیں اور لاشعوری طور پر یہ ان کے اندر جڑ پکڑتی جاتی ہے پھر اس کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک روز یہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اور خوف زدہ آدمی کی شخصیت کو مضحکہ خیز یا قابل نفرت بنادیتا ہے۔
 ایک مثال دیکھیے، یہ ہمیں ملنے والے بے شمار خطوط میں سے ایک ہے،خط لکھنے والی صاحبہ کا نام وغیرہ ہم ظاہر نہیں کرسکتے، وہ لکھتی ہیں ” میں ایک مصیبتوں کی ماری لڑکی ہوں، ہوسکتا ہے یہ ساری مصیبتیں میری اپنی پیدا کردہ ہوں، ہمارے گھر کے حالات ابتدا ہی سے کچھ اچھے نہیں رہے، میرے ابو ایک دوسرے شہر میں کام کرتے تھے، پھر وہ ملک سے باہر چلے گئے، ان کے جانے کے بعد میری امی اور ہمارے ساتھ وہی سلوک ہوتا رہا جو اکثر شوہر اور باپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ظلم کی حد تو شاید میرے اوپر ختم ہوئی، میرے چھوٹے چچا نے مجھے پڑھانا شروع کیا لیکن وہ اتنا مارتے تھے کہ میں آج بھی ان کی مار نہیں بھولی اور اسی چیز نے مجھے پڑھائی سے بے زار کردیا ہے، میں نے اپنے چچا کا ہر کام چھوٹی سی عمر سے کیا ہے اور مجھے بچپن سے یہ احساس رہا ہے کہ میرے ابو ہوتے تو شاید میں کسی اچھے اسکول میں پڑھتی اور مار سے بچتی لیکن خیر! پھر جب میں پانچویں میں تھی تو میرے چچا نے اپنا ایک اسکول کھول لیا اور مجھے بھی وہاں پڑھانے پر لگادیا، میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں پڑھانے لگی کیوں کہ میں اپنے چچا کی مار سے بہت ڈرتی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ میرے منع کرنے سے کچھ ہوگا نہیں، پھر میں نے پرائیویٹ میٹرک بھی کرلیا تو پورے اسکول کی ذمے داری اور چچا کے گھر کا تمام کام میرے ذمے ہی تھا، اس دوران میں میرے ابو واپس آگئے مگر ان کے آنے سے بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، میرے چچا کا رویہ ابو سے بہت اچھا تھا لہٰذا وہ ان کے آگے کسی کی بات نہیں سنتے تھے، اوپر سے دادا دادی بھی ابو کے کان بھرتے اور امی کے خلاف ابو کو بھڑکاتے رہتے کہ یہ عورت تمہیں مروانا چاہتی ہے، ابو پر دادا دادی کا حکم ہی چلتا ہے، اس لیے اکثر امی ابو کے درمیان جھگڑا رہتا تھا، ابو نے مجھے چچا کے پاس ہی چھوڑ رکھا تھا، اس ساری صورت حال نے مجھے ہمیشہ شدید اذیت میں مبتلا رکھا، ابو کے سامنے یا کسی کے سامنے بھی اپنی کوئی بات کہنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، یہ خوف رہتا تھا کہ بعد میں چچا ماریں گے اور ابو بھی ان کی بات کو ہی اہمیت دیں گے لہٰذا میں چچا کی خدمت کرتی رہی اور ان کا اسکول چلاتی رہی، اب نئی مصیبت مجھ پر ان کی بیوی نے توڑی ہے، وہ ایک بہت مغرور اور بدزبان بلکہ جھگڑالو عورت ہے، اس کے بھائیوں کی وجہ سے چچا بھی اس سے داب کھاتے ہیں، اسے کچھ نہیں کہتے، وہ میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتی ہے، چچا میرے گھر پر تین ہزار روپے مہینہ میری تنخواہ کا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ابو بھی مجھے زور دیتے ہیں کہ پڑھانے جاو ¿ں،حالاں کہ میری چچی مجھ سے نفرت کرتی ہے اور چچا پر زور ڈالتی ہے کہ مجھے اسکول سے نکال دیں لیکن وہ اس کی بات نہیں مانتے ، مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اپنا کام کرو، وہ کہتی ہے تو کہنے دو، اب میری چچی لڑ کر اپنے میکے چلی گئی ہے اور مجھے بدنام کر رہی ہے کہ یہ لڑکی میرا گھر برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ نوکری کرنی ہے تو کہیں اور کرلو، میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر خوف کی وجہ سے ابو سے یہ بات نہیں کہہ سکتی، آپ کوئی وظیفہ بتادیں کہ ان مصیبتوں سے میری جان چھوٹ جائے ورنہ اب صورت حال یہ ہے کہ میرا خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے“
عزیزان من! ہم نے یہ خط بہت اختصار کے ساتھ شائع کیا ہے کہ اس سے زیادہ کی گنجائش بھی نہیں تھی، صرف آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ خوف کے سائے میں پلنے والی لڑکی کی زندگی کس طرح تباہ ہورہی ہے، یہاں اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہیں کہ ایسا کیوں ہوا ، وہ خط میں بیان کیے گئے حالات سے ظاہر ہے، بات صرف اتنی غور طلب ہے کہ لڑکی اگر خوف کے چنگل سے نکل آئے تو اس کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، باپ یا چچا اسے جان سے نہیں ماریں گے مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوف کے سائے میں پل کر اپنی اصل شخصیت ہی مسخ کر بیٹھی ہے اور اس کی مثال کنویں کے اس مینڈک کی سی ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ سمندر کیا شے ہے؟
ہم دیگر تفاصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ بعد ازاں اس خوف زدہ لڑکی کو کیسے خوف سے نجات ملی،اس حوالے سے سائیکولوجی اور پیراسائیکولوجی کے ماہرین مناسب ہدایات اور علاج تجویز کرتے ہیں جن میں خاص طور پر فری رائٹنگ کی مشق اور مراقبہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہومیوپیتھک ٹریٹمنٹ بھی ایسے مختلف خوف کا شکار افراد کے لیے نہایت مو ¿ثر ثابت ہوتا ہے، ایسٹرولوجی اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے، اس موضوع پر انشاءاللہ پھر کبھی گفتگو ہوگی۔
لوح شرفِ زہرہ نورانی 
سیارہ زہرہ عشق و محبت ، حسن و خوبصورتی اور دوستی و تعلقات کا ستارہ کہلاتا ہے،یہ مالی اُمور پر بھی اثر انداز ہے،آمدن میں اضافے اور انعامی اسکیموں میں زہرہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ دائرئہ بروج میں زہرہ دوسرے گھر یعنی خانہ ءمال کا حاکم ہے اور دائرئہ بروج کے ساتویں گھر برج میزان پر بھی اس کی حکمرانی ہے،ساتواں گھر انسانی زندگی میں تعلقات پر زور دیتا ہے لہٰذا ہر قسم کی پارٹنر شپ خواہ کاروباری ہو یا ازدواجی ، ساتویں گھر کے زیر اثر ہے۔
کسی بھی زائچے میں سیارہ زہرہ محبت ، شادی اور دیگر نوعیت کے تعلقات کی نشان دہی کرتا ہے،اگر زائچے میں زہرہ کمزور ہو یا نحس اثرات کا شکار ہو تو ایسے خواتین و حضرات کی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں،محبت میں ناکامی ، شادی میں تاخیر ، عملی زندگی میں عزیزو اقارب ، ملازمت یا کاروبار میں دوسروں سے تعلقات میں خرابی کی نشان دہی ہوتی ہے،ایسے افراد عموماً خشک مزاجی کا شکار رہتے ہیں،زائچے میں سیارہ زہرہ کی خرابیاں بعض اوقات نہایت پیچیدہ نوعیت کی بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں جن میں جنسی و نفسیاتی امراض اور بانجھ پن جیسے مسائل شامل ہیں ۔
سیارہ زہرہ اگر زائچے میں طاقت ور ہو اور نحس اثرات سے پاک ہو تو انسان معاشرے میں محبوبیت اور مقبولیت حاصل کرتا ہے،دوسرے لوگ اُس کی قربت سے خوشی و شادمانی محسوس کرتے ہیں اور پروانہ وار اس پر نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں،محبت یا شادی اس کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے،عام زندگی میں بھی لوگوں سے بہتر تعلقات استوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملازمت یا کاروباری معاملات میں ترقی ملتی ہے اور خوش قسمتی ساتھ چلتی ہے،ایسے لوگوں کو کبھی کوئی مالی پریشانی نہیں ہوتی بلکہ تحفہ تحائف ملتے رہتے ہیں اور انعامی اسکیموں میں بھی کامیابی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
زائچے میں زہرہ کی کمزوری دور کرنے اور ناقص اثرات سے نجات کے لیے عام طور سے ڈائمنڈ تجویز کیا جاتا ہے جو آج کے زمانے میں عام آدمی کے لیے خاصی نا ممکن سی بات ہے اور شاید ماضی میں بھی ڈائمنڈ کا استعمال عام آدمی کے بس کی بات نہ رہی ہوگی،ایسے قیمتی جواہرات تو امراءاور بادشاہوں کے زیر استعمال ہی ہوسکتے ہیں۔
علم جفر اور علم نجوم کے اشتراک سے ماہرین نجوم و جفر ایسے طلسم و نقوش ترتیب دینے میں کامیاب رہے ہیں جو پیدائشی زائچے کی کمزوریوں اور نحس اثرات کو دور کرسکیں،اس سلسلے میں سیارہ زہرہ کے اوج ، شرف یا دیگر باقوت سعد نظرات سے مدد لی جاتی ہے اور ایسا مادّہ مہیا کیا جاتا ہے جو زہرہ کے سعد و باقوت اثر کو قبول کرلے پھر مقررہ وقت پر زہرہ سے منسوب دھات پر مرتب شدہ نقوش و طلسمات نقش کرلیے جاتے ہیں ضرورت مند ایسی الواح کے استعمال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں،اس سال سیارہ زہرہ دو بار شرف یافتہ ہوگا، پہلی مرتبہ 30 جنوری رات 12:20 am سے 31 جنوری 04:35 am تک اور دوسری مرتبہ 13 اپریل سے 17 اپریل تک، 30 جنوری کے وقت کی نشان دہی پہلے بھی کی جاچکی ہے،البتہ اپریل میں شرف کا وقت زیادہ طویل ہوگا، اس کے حوالے سے انشاءاللہ اپریل کے آغاز میں ہی بات ہوگی۔
عزیزان من! اگرچہ شرفِ زہرہ کے حوالے سے بہت سے اعمال و نقوش مروج ہیں اور مختلف کتابوں میں بھی درج ہےں، ماہرین جفر ہر سال ایسے اعمال سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جو یقیناً مو ¿ثر و مفید بھی ہوتے ہیں لیکن ہم پہلی بار ”لوح شرفِ زہرہ نورانی“ پیش کر رہے ہیں جس کے سریع التاثیر ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے،قرآنی حروف مقطعات کی یہ لوحِ مبارکہ اپنی صفات و تاثیر میں عجیب ہے جو لوگ اسے شرفِ زہرہ کے موقع پر تیار کرکے پاس رکھیں گے وہ خود اس کے فیوض و برکات کا مشاہدہ کرلیں گے،لوح مبارک یہ ہے ۔

عزیزان من! اس لوحِ مبارک کو شرفِ زہرہ یا اوج زہرہ کے اوقات میں ساعتِ زہرہ میں چاندی یا تانبے کی لوح پر کندہ کیا جائے اور تمام قواعدِ عملیات کا خیال رکھا جائے یعنی رجال الغیب سامنے نہ ہوں، سفید لباس پہن کر باوضو ہوکر زہرہ کا بخور صندل سفید ، کافور وغیرہ جلائیں یا عمدہ قسم کی صندل کی اگربتیاں کام میں لائیں،لباس میں عطرِ حنا کی خوشبو لگائیں، فاتحہ کے لیے کچھ سفید یا سبز رنگ کی مٹھائی پاس رکھیں اور نقش مکمل کرنے کے بعد 719 مرتبہ اسمائے الٰہی یالطیف الرحیم الکریمُ کا ورد کرکے لوح پر دم کریں اور مٹھائی پر فاتحہ دے کر بعدازاں خود بھی کھائیں اور دیگر احباب میں بھی تقسیم کردیں ،فاتحہ کے بعد ایصال ثواب کرتے ہوئے ہمارے دادا حضرت کمبل پوشؒ کو بھی یاد رکھیں۔
 ہر شخص کو اپنی ذات کے لیے ایک لوح تیار کرنے کی اجازتِ عام ہے، لوح کو پاس رکھنے یا پہننے کے بعد اگر تسخیر خاص یا تسخیر خلق مقصود ہو تو روزانہ یا لطیفُ الرحیمُ الکریمُ کا ورد 719مرتبہ 80 روز تک کریں اور اگر رزق و روزگار یا کاروباری ترقی ، ملازمت کا حصول مقصود ہو تو اسمائے الٰہی یا اللہُ الرزاقُ الباسطُ السمیعُ کا ورد 719 مرتبہ 80 دن تک جاری رکھیں انشاءاللہ آپ کا مقصد پورا ہوگا۔
نقش کے خانوں میں چال کو سمجھنے کے لیے ہر خانے کے کونے میں انگریزی ہندسے دیے گئے ہیں، انہیں نقش کے اندر لکھنے کی غلطی نہ کریں،یہ نقش کی رفتار ظاہر کرتے ہیں، ان کی پیروی کرتے ہوئے نقش کے خانے پُر کیے جائیں گے،پہلے خانے میں زہرہ کے حروفِ مقطعات کھیعص اور 23 ویں خانے میں حمعسق نقش کی پیشانی پر موجود ہےں،اسمِ ذات اللہ نقش کے قلب میں قائم ہے،نقش کی کاملیت اور خوبیوں پر ہم کیا روشنی ڈالیں، اہلِ نظر ہی اس کا عرفان کرسکتے ہیں۔
نقش مکمل کرنے کے بعد پُشت پر زہرہ کے مو ¿کلات و طلسم اور اپنا نام مع والدہ لکھیں اور ساتھ ہی نقش کے مو ¿کل کا نام لکھیں جو یہ ہے ”یا طیذائل“ 
مو ¿کلاتِ زہرہ اور طلسم یہ ہے 
خاتم طلسم زہرہ

شرف یا اوج زہرہ کے موقع پر خاتم طلسم زہرہ بھی تیار کی جاسکتی ہے،اس خاتم کو تیار کرنے کے لیے مزید مواقع بھی حاصل ہوسکتے ہیں، اگر عروج ماہ میں قمر و زہرہ ، عطارد و زہرہ، مریخ و زہرہ یا مشتری و زہرہ کے درمیان تثلیث یا تسدیس کی نظر ہو اور قمر یا نظر میں شامل دیگر سیارگان نحوست سے پاک ہوں تو یہ خاتم تیار کی جاسکتی ہے۔
اس وقت چاندی کی انگوٹھی پر طلسم کندہ کر کے آپ ایک ایسا تمغہ حاصل کرسکتے ہیں جسکاکوئی ثانی نہیں۔ اس طلسم کو زہرہ کے مخصوص پتھر یا کسی بھی زرد، سبز یا سفید پتھر پر بھی کندہ کیا جاسکتا ہے۔ کندہ کرتے وقت برادہ سفید صندل اور لوبان ملا کر جلائیں اور انگوٹھی یا پتھر کو زہرہ کی سعد ساعتوں میں دھونی دیں۔ جب اس کام سے فارغ ہوجائیں تو پھر کسی بھی جمعے یا جمعرات کو ساعتِ زہرہ میں دائیں ہاتھ میں پہن لیں۔ بعدازاں اس طلسم کی قوت تسخیر کا آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا۔ 
رزق میں کشادگی، ملازمت کا حصول یا ترقی، شادی میں رکاوٹ، محبت میں کامیابی، لوگوں میں مقبولیت اور شہرت، الغرض ایسے بے شمار فوائد اس طلسم زہرہ کی تاثیرات میں شامل ہیں۔ اس طلسم کو کندہ کرنے سے پہلے اس کی زکوٰة و صدقات کا طریقہ سمجھ لیں۔
جس روز ساعتِ زہرہ میں طلسم لکھنا ہے۔ اس سے چند روز پہلے یا دو تین روز پیشتر اس کی زکوٰة کے لیے تیاری کریں۔ وہ اس طرح کہ روزانہ زہرہ کی جو ساعتیں بھی مل رہی ہیں ان میں سے 6 ساعتوں میں جو سعد ترین ہوں، ایک سفید کاغذ پر سبز روشنائی سے 6 بار اس طلسم کو لکھ لیں۔ اس طرح 6 ساعتوں میں 36 مرتبہ لکھا جائے گا۔ کسی ایک ہی کاغذ پر مقررہ ساعات میں 6 بار لکھ لیا کریں۔ بعد میں اسے حفاظت سے رکھ دیا کریں۔ جب 6 ساعتوں میں 36 مرتبہ ہوجائے تو علیحدہ علیحدہ کاٹ کر آٹے میں ملا کر گولیاں بنالیں اور دریا یا سمندر پر جاکر مچھلیوں کو ڈال دیں۔ بعدازاں واپسی پر 6 قسم کا اناج لیں مثلاً گندم، چاول، چنے کی دال، ماش کی دال، مونگ کی دال، مسور کی دال وغیرہ۔ حسب توفیق برابر وزن میں لے لیں چاہے ایک ایک پاﺅ ہی کیوں نہ ہو۔ گھر لا کر اسے جس طرح مناسب سمجھیں عمدہ طریقے سے پکالیں۔ اگر حلیم بنائیں تو مرغی یا بکرے کا گوشت ڈالیں یا جس طرح مناسب سمجھتے ہوں میٹھا یا نمکین پکالیں اور اس پر فاتحہ دے کر خود بھی کھائیں دوسروں کو بھی کھلائیں۔ بس یہی اس عمل کی زکوٰة و صدقہ ہے، اس کے بعد شرف کے موقع پر ساعتِ زہرہ میں یہ طلسم چاندی کی انگوٹھی پر کندہ کرلیں۔ اگر وہ بھی بھی میسر نہ ہو تو ہرن کی جھلی پر سبز قلم سے لکھ کر رکھ لیں اور بعد میں کسی انگوٹھی میں رکھ کر اس کے اوپر سبز، سفید یا زرد رنگ کا نگینہ جڑوالیں۔ طلسم درج ذیل ہے:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں