پیر، 11 جولائی، 2016

ذاتی عناصر میں اعتدال، کامیابی کی بنیادی کُنجی

آگ، پانی، مٹی اور ہوا کا عمل دخل انسانی فطرت و کردار کا اہم حصہ
رمضان کے مقدس مہینے میں دہشت گردی کی لہر مدینہ ءمنورہ تک پہنچ گئی جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، اس واقعے سے تمام عالم اسلام شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہوگیا، مزید تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ اس واردات میں ایک پاکستانی ملوث تھا جو ظاہر ہے مسلمان ہونے کا دعوے دار بھی تھا، بتایا یہ جارہا ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں داعش کی طرف سے کی جارہی ہیں اور یہ لوگ خارجی ہیں، خارجی فرقہ اگرچہ خاصا قدیم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ صفین کے بعد حضرت علیؓ اور دیگر تمام اکابر صحابہ کے خلاف ہوگئے تھے، ان کی ظالمانہ اور بربریت سے بھرپور کارروائیاں اتنی بڑھ گئیں کہ بالآخر حضرت امیر المومنین کو ان کے خلاف جنگ کرنا پڑی، جنگ نہروان میں اگرچہ ان کی ایک کثیر تعداد ماری گئی مگر پھر بھی بچے کھچے خارجی وقتاً فوقتاً شورش برپا کرتے رہے ، اسی مبارک مہینے میں ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے کوفے کی مسجد میں باب العلم جناب امیر ؓ کو شہید کردیا،یہ ایک ایسا سانحہ ءعظیم تھا جس کی کوئی تلافی ممکن نہ تھی، ابتدا ہی سے یہ گروہ نہایت سخت گیر اور شقی القلب رہا، اُس زمانے میں بھی اس گروہ کے افراد میں حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو قتل کیا، اپنے علاوہ وہ سب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے رہے۔
بعد ازاں خارجیوں کے خلاف مختلف ادوار میں فوجی کارروائیاں جاری رہیں لیکن ان کا خاتمہ نہ ہوسکا، یہ لوگ خفیہ یا اعلانیہ طور پر ہر دور میں موجود رہے،گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بار پھر ان کا نام نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے،اس ساری صورت حال میں کس قدر صداقت ہے ، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، غالباً 1979 ءمیں بھی ان کی ایک نمایاں کارروائی سامنے آئی تھی، تقریباً 300 افراد نے خانہ ءکعبہ پر قبضہ کرلیا تھا، یہ قبضہ چھڑانے کے لیے سعودی حکومت کو فرانس اور پاکستان سے مدد لینا پڑی۔
کہا جاتا ہے کہ داعش کا قیام ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے مگر یہ سازش کس کی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟
فی الحال اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں ہے، داعش کی کارروائیاں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں، فرانس، بیلجئم اور دیگر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک داعش کی دہشت گردی کا شکار ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں امریکا کی خفیہ آشیربادحاصل ہے کیوں کہ روس کے حمایت یافتہ شام کے بھی یہ مدمقابل ہیں، قصہ مختصر یہ کہ اس فتنہ ءتازہ کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بڑے بڑے ملک ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جو بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کوئی نادیدہ قوت ان کی پشت پر موجود ہے اور وہ یقیناً امریکا ہے کیوں کہ ان کی کھلی دہشت گردی کے خلاف امریکا ابھی تک ان کے خلاف پوری طرح میدان عمل میں نہیں آیا اور آئندہ بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے، حالاں کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف دنیا بھر میں پیش پیش نظر آتا ہے لیکن داعش کے معاملے میں عملی طور پر اس کی کارکردگی صفر ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ”فتنہ ءداعش“ شاید مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور امت مسلمہ کا جو حال ہے، وہ سب پر عیاں ہے، بقول فیض 
نہ اس سے آگ ہی بھڑگے، نہ اس سے پیاس بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
عزیزان من! بعض واقعات و سانحات نہایت تکلیف دہ اور دل خراش ہوتے ہیں،ذہن کو بری طرح متاثر کرتے ہیں،مندرجہ بالا تمام گفتگو شاید ایسی ہی وارداتِ قلبی کا نتیجہ ہے، حالاں کہ اس بار ہمارا ارادہ ایک دوسرے اہم معاشرتی موضوع پر بات کرنے کا تھا، اکثر ہمارا واسطہ اس موضوع سے پڑتا ہے، لوگ پوچھتے ہیں کہ ہماری ناکامی کا اصل سبب کیا ہے؟یا یہ کہ بعض دیگر افراد کی کامیابیاں یا ناکامیاں ان کے پیش نظر ہوتی ہیں، اس حوالے سے اگرچہ بہت سے عوامل قابل غور ہوتے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ کسی بھی انسان کی بنیادی ساخت و پرداخت ہے، ہم اس پر پہلے بھی لکھتے رہے ہیں، اس بار ایک طویل خط ہمارے پیش نظر ہے جس میں کچھ اسی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس خط پر تو بعد میں بات ہوگی، آئیے پہلے انسان کی بنیادی ساخت پر علم نجوم کی روشنی میں بات ہوجائے۔
عناصر کا عدم توازن
انسانی فطرت ، شخصیت و کردار قدیم زمانے سے دنیا بھر کے اہل دانش کا موضوع رہا ہے،نفسیات کا علم انسان کی ایسی ہی خوبیوں اور خامیوں یا دوسرے معنوں میں فطری اور شخصی پیچیدگیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے وجود میں آیا، مشہور ماہر نفسیات کارل یونگ نے پہلی مرتبہ انسانی نفسیات کے مطالعے میں علم نجوم سے مدد لی اور آج بھی انسانی نفسیات کے مطالعے میں علم نجوم کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے،ہم ماضی میں کئی بار اس موضوع پر لکھ چکے ہیں اور اکثر بعض افراد کے نجی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے علم نجوم کی روشنی میں فطرت و کردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی شخص کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سراغ لگایا جاسکے، ہر انسان اپنی فطرت و کردار میں دوسروں سے مختلف اور کبھی کبھی عجوبہ ءروزگار ہوتا ہے،اس کی بائی برتھ خوبیاں اور خامیاں زندگی میں کامیابیوں یا ناکامیوں کا باعث بنتی ہیں،اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ میرا مسئلہ کیا ہے یا یہ کہ فلاں فلاں کا مسئلہ کیا ہے،خاص طور پر بچوں کے حوالے سے اکثر لوگ پریشان ہوتے ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا بچہ کس قسم کا ہے؟ اور مستقبل میں کیا کرے گا؟ یا اُسے کیا کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔
اس سوال کا سیدھا سادہ جواب تو یہی ہے کہ انسان اپنی فطری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہی زندگی کے راستے پر آگے قدم بڑھاتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور ماحول کے اثرات اس کی فطری خوبیوں اور خامیوں کو نئے رخ دیتے ہیں۔ یہ نئے رخ اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔ اگر پیدائشی اثرات یعنی زائچہ پیدائش میں عنصری توازن موجود ہے تو انسان ہر قسم کے ماحول اور حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں وہ حالات اور ماحول کا درست انداز میں مقابلہ کرنے کا اہل نہیںہوتا۔ مثلاً اگر کسی کے انفرادی زائچے میں ہوا کا عنصر بہت زیادہ ہے تو اس کی وجہ سے غیر ذمہ داری، متلون مزاجی، عدم استحکام اور بے عملی کے اثرات زندگی بھر پریشان کرتے رہیں گے۔ نتیجے کے طور پر ایسے لوگ اپنی ابتدائی زندگی میں نہ تو ڈھنگ سے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزر پاتے ہیں اور نہ ہی آئندہ زندگی میں اپنے کیریئر کے حوالے سے کوئی مضبوط مقام حاصل کر پاتے ہیں کیوں کہ احساس ذمے داری، مضبوطی اور استحکام اور عملی جدوجہد کے لیے زمینی قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی خاکی عنصر (Earth Elements) ضروری ہے، تب ہی ہوائی عنصر کی ذہانت، تصوراتی قوت، بلند خیالی کوئی عملی رخ اختیار کر کے تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو گی اور ہمیں ہمارے خوابوں کی حقیقی تعبیر مل سکے گی۔
کائنات کا عنصری امتزاج
اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیںکر سکتا کہ ہماری اس کائنات کی تکمیل میں عناصر کے امتزاج کی حقیقت مسلم الثبوت ہے۔ یہ عناصر انسانی وجود کا بھی لازمی حصہ ہیں۔ علم نجوم کی تحقیق اور تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری ساخت میں عناصر کا تناسب کیا ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی شخص کے برتھ چارٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک لمحے میں جان لیتے ہیںکہ اس کی خوبیاں، خامیاں، صلاحیتیں، ذہنی رجحانات، عملی قوتیں یا خیالی اور تخلیقی قوتیں کیسی ہیں۔
تمام مادی معاملات جن میں کاروبار، روزگار، نظم و ضبط، محنت ، جدوجہد اور عملی مظاہرے شامل ہیں، خاکی عنصر (Earth Elements) کے ماتحت ہیں، اگر کسی انسان نے خاکی عنصر معقول حد تک موجود نہیں ہے تو وہ بے عملی کا شکار ہوگا۔
صحت، بیماری، تنازعات، خیال آفرینی، پریشانی، توہمات، تصورات، آئیڈیاز وغیرہ کا تعلق ہوائی عنصر (Air Elements) سے ہے، بے شک یہ لوگ نت نئے آئیڈیاز، خوش امیدی اور ذہانت سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن عملی میدان میں ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی، یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کی پیروی کرےں، محنت مشقت اور سخت جدوجہد ان کے بس کا کام نہیں ہے۔
آتشی عنصر (Fire Elements) جوش و جذبے، قوت و اقتدار، قبضہ و اختیار، انا، عزت و وقار سے متعلق ہے، آتشی عنصر کی کمی جوش و جذبے کا فقدان لاتی ہے، یہ لوگ اپنے حق کے لیے بھی زیادہ کوشش و جدوجہد نہیں کرتے لیکن اگر آتشی عنصر بھرپور ہے تو ان لوگوں کو کسی میدان میں بھی شکست نہیں دی جاسکتی، یہ اپنے جوش و جذبے کی طاقت سے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔
آبی عنصر (Water Elements) احساسات اور زرخیزی سے متعلق ہے لہٰذا خوشی اور غم، محبت و نفرت اور تخلیقی قوتیں اس کے زیر اثر ہیں، آبی عنصر بے حد حساس اور جذباتی ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی نوٹس لیتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ نوٹس لیتے ہیں بلکہ انہیں خود پر طاری کرلیتے ہیں،احساسات ان کی زندگی کا سرمایہ ہے، یہ لوگ ہمیشہ کسی نہ کسی احساس سے چمٹے ہوئے نظر آئیں گے، اگر یہ احساس مثبت ہو تو یہ لوگ غیر معمولی کارنامے انجام دیتے ہیں، اگر منفی ہو تو اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسئلہ بن جاتے ہیں، نفسیاتی مریضوں کی خاصی بڑی تعداد آبی عنصر میں پائی جاتی ہے۔
کسی بھی انسان کی شخصیت، فطرت اور کردار کی تشریح اس کے برتھ چارٹ میں ان عناصر کے توازن پر منحصر ہے۔ ہوا کی زیادتی ایک تخیل پرست ، سست و کاہل، بے عمل انسان بناتی ہے جب کہ خاکی عنصر کی زیادتی مادی سوچ اور رویوں کو ابھارتی ہے۔ مقصدیت، مفاد پرستی، عملیت، سرد مزاجی، طبیعت میں خشکی پیدا کرتی ہے۔
آتشی عنصر کی زیادتی پرجوش، سرکش، باغی، جارحیت پسند، نڈر، جرا ¿ت مند اور مہم جو بناتی ہے۔
آبی عنصر کی زیادتی نہایت حساس بناتی ہے۔ زبردست تخلیقی قوت اور زرخیزی عطا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کے احساسات اور سوچ میں دائمی گہرائی اور ارتکاز توجہ کی قوت پائی جاتی ہے۔
کسی برتھ چارٹ میں یہ چاروں عناصر توازن کے ساتھ فعال ہوں تو اس شخص کے معاملات میں ہر اعتبار سے نارمل رویوں اور طور طریقوں کا اظہار ہو گا۔ جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں کسی نہ کسی کمی یا زیادتی، خوبی یا خامی کا امکان موجود ہوتا ہے۔
عناصر اور بارہ بروج
دائرہ بروج کے 12 بروج ان 4 عناصر پر تقسیم ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
آتشی بروج: حمل (Aries)، اسد (Leo)، قوس (Sagittarius)
خاکی بروج: ثور (Taurus)، سنبلہ (Virgo)، جدی (Capricorn)
ہوائی بروج: جوزا (Gemini)، میزان (Libra)، دلو (Aqurius)
آبی بروج: سرطان (Cancer)، عقرب (scorpio)، حوت (Picses)
عنصری تقسیم کے علاوہ 12 برجوں کو ماہیت کے اعتبار سے بھی تقسیم کیا جاتا ہے جس میں 4 برج ثور، اسد، عقرب اور دلو ثابت یا منجمد (Fixed) کہلاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان برجوں کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد میں ٹھہراﺅ پایا جاتا ہے جب کہ 4 برج منقلب (Cardinal) کہلاتے ہیں۔ یہ حمل، سرطان، میزان اور جدی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ متحرک ہوتے ہیں اور جلد تبدیلیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مزید 4 برج جوزا، سنبلہ، قوس اور حوت ذوجسدین (mutable) کہلاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بروج کے تحت پیدا ہونے والے افراد کی شخصیت میںدہرا پن ہوتا ہے یعنی متحرک بھی ہوتے ہیں اور جامد بھی۔
عزیزان من! یہ علم نجوم کے بنیادی اصول ہیں۔ ان سے عام لوگ قطعی واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ہی واقفیت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس علم سے استفادہ کرے مگر صرف اس حد تک کہ اسے آئندہ مستقبل کے بارے میں بتا دیا جائے۔ دراصل بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس شاندار، لاجواب علم کو صرف قسمت یا غیب کا حال بتانے والا علم سمجھ لیا گیا ہے اور اکثر لوگ صرف اسی حد تک اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ کسی ماہر نجوم سے اگر رابطہ کرتے ہیں تو ان کے سوالات بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ انہیں ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے پوشیدہ باتیں بتائی جائیں۔ بے شک علم نجوم ان تمام موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے مگر کچھ اصول و قواعد کی پابندی کرتے ہوئے۔ ان میں سب سے پہلا اصول تو یہی ہے کہ انسان کی شخصیت، فطرت اور کردار کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ ان خوبیوں اور خامیوں کے حامل شخص کے لیے ماضی میں وقت کی رفتار کیسی تھی اور حال میں کیسی ہے۔ پھر مستقبل کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے مگر اس علم سے واقفیت رکھنے والے افراد کے لیے وہ مرحلہ بڑا مشکل ہوتا ہے جب کسی شخص کا زائچہ منفی پہلوﺅں کی نشاندہی زیادہ کر رہا ہو اور مثبت پہلو بہت کم نظر آ رہے ہوں۔ ایسی صورت میں خاموشی اختیار کرنا ہی زیادہ بہتر ہوتا ہے کیوں کہ صاف گوئی اور سچائی مخاطب کی دل شکنی اور مایوسی کا سبب بن سکتی ہے۔
عناصر میں توازن کے حوالے سے اس قدر تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عناصر کے عدم توازن کی درستگی کے کیا امکانات ہیں۔ اس حوالے سے جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، عام ماہرین نجوم کوئی موافق پتھر تجویز کرتے ہیں لیکن ایک اور طریقہ بھی تجربہ شدہ ہے اس سلسلے میں مسلمان ماہرین روحانیات صدقات اور اسمائے الٰہی سے کام لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان ماہرین جفر ایسی الواح و نقوش بھی مرتب کرنے کے طریقے تعلیم کرتے ہیں جو کسی عنصر کی کمی و بیشی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کر سکیں۔ بے شک ایسی چیزوں کی تیاری عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہم نے ان علوم سے شوق رکھنے والے افراد کے لیے ایک اشارہ دے دیا ہے۔ اگر فہم و فراست سے کام لیا جائے تو یہ اشارہ بہت سے پوشیدہ رازوں کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ انشاءاﷲ پھر کبھی اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
جس طویل خط کے پیش نظر عناصر کے تناظر میں اب تک گفتگو رہی ہے، اس خط میں خط لکھنے والے نے اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا شکوہ کیا ہے،صاحب خط کا شمسی برج (Sun sign) دلو (Aqurius) ہے جو ایک ہوائی برج ہے، زائچے میں زہرہ اور مرکری بھی اسی ہوائی برج میں ہے، وقتِ پیدائش کے مطابق برتھ سائن اور قمری برج بھی ہوائی یعنی میزان ہے، اس طرح زائچے کے چار اہم سیارگان کا تعلق ہوائی عنصر سے ہوگیا، سیارہ زحل برج حوت میں ہے جو آبی برج ہے اور مشتری خاکی برج جدی میں ، جب کہ مریخ اور راہو بھی خاکی برج سنبلہ میں ہےں، زائچے میں کوئی سیارہ آتشی برج میں نہیں ہے جس کی وجہ سے جوش ، جذبے ، مہم جویانہ ، ہمت و حوصلے کی کمی ہے، بزدلی، وہم ، شک، حرص و ہوس اور خیال و خواب کی باتیںاس زائچے میں نمایاں ہے، مشتری تیسرے گھر کا حاکم ہے جو کوشش اور پہل کاری کا گھر ہے، برج جدی میں ہبوط یافتہ یعنی نہایت کمزور ہے لہٰذا صورت حال یہ ہوگی کہ زندگی بھر ”ارادے باندھتا ہوں، توڑ دیتا ہوں“ کی مثال سامنے آتی رہے گی، منصوبہ سازی ، زبردست قسم کے آئیڈیے زندگی میں بہت ہے لیکن ہمت اور حوصلے کی کمی ہے، کوشش اور جدوجہد کا فقدان ہے، چناں چہ زندگی میں ناکامیاں اور محرومیاں بھی مقدر ہیں۔
عزیزان من! مختصر انداز میں ہم نے عناصر کے حوالے سے جو تشریح کی ہے، اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں کامیابیوں اور ناکامیوں میں کون سے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں، صاحب زائچہ کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ عمدہ قسم کا یلو سفائر کا نگینہ کسی اچھے وقت پر پہن لیں تاکہ بے عملی اور خوابوں کی دنیا سے نجات مل سکے، اس کے بعد ہی وہ زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
دوسری مثال
شمسی برج میزان ، قمری برج ثور اور پیدائشی برج قوس ہے، برج قوس آتشی ہے اور زہرہ کے ساتھ سیارہ مریخ بھی اسی برج میں ہے،شمس ، زحل اور مشتری ہوائی برج میں ہیں، قمر خاکی برج میں ہے جب کہ عطارد آبی برج میں ہے، اس طرح ایک متوازن زائچہ سامنے آتا ہے، بے شک ہوائی عنصر کا غلبہ ہے یعنی تین سیارگان ہوائی برج میں ہیں لیکن پیدائشی برج قوس آتشی ہے، قمری برج خاکی یعنی ثور ہے، عطارد آبی برج میں ہے، گویا چاروں عناصر زندگی کے مختلف پہلوو ¿ں ، شخصیت و کردار پر اثر انداز ہیں، ان کی کمی بیشی اپنی جگہ ، برج قوس بہت نڈر ، بے چین ، فلسفیانہ سوچ کا حامل اور مہم جو بناتا ہے، یہ لوگ کسی معاملے میں رسک لینے سے نہیں ڈرتے، تیسرے کوشش اور پہل کاری کے گھر کا حاکم زحل اپنے ہی گھر میں موجود ہے اور نہایت باقوت پوزیشن رکھتا ہے، شمس کمزور ہے جو نویں قسمت کے گھر کا حاکم ہے،گویا قسمت کمزور ہے لیکن کوشش اور جدوجہد کا جذبہ موجود ہے، ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے صاحب زائچہ نے مشکل حالات میں تعلیم مکمل کی اور پولیس میں ملازمت حاصل کرلی، مسلسل محنت سے ایک اعلیٰ عہدے تک رسائی حاصل ہوئی، چناں چہ معقول حد تک ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہے، قسمت کی کمزوری کے باوجود اس نے اپنی کوشش اور جدوجہد سے ایک اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں