جمعرات، 26 مئی، 2016

اصطلاحاتِ جفر کی تشریح اور دیگر اہم جفری رموز و نکات

ایک ایسے علم کے بنیادی اصول و قواعد جس میں طویل چلّہ کشی کی ضرورت نہیں 



گیارہ مئی 2013 ءکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے حلف اٹھانے کے لیے 5 جون 2013 ءکا انتخاب کیا تھا تو ہم نے لکھا تھا کہ بہتر ہوتا ، حلف کے لیے تاریخ 3 یا 4 جون رکھی جاتی، اگر 5 جون رکھی گئی ہے تو بہتر ہوگا کہ حلف اسلام آباد کے وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے بارہ بجے کے درمیان لیا جائے مگر ظاہر ہے کہ ہمارا مشورہ تو اخباری کالم تک ہی محدود رہتا ہے،اس پر کون عمل کرتا ہے؟ چناں چہ حلف شام 5:37:34 pm پر مکمل ہوا اور ہم نے اس وقت کے مطابق زائچہ ءحلف پر جو تجزیاتی رپورٹ پیش کی تھی، اس میں سے ایک مختصر اقتباس پیش خدمت ہے۔
”عزیزان من ! حلف کے زائچے کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ نئے وزیر اعظم اپنی تمام تر خوبیوں اور نیک نیتی کے
 باوجود مشکل ترین حالات کا مقابلہ کریں گے اور محاورتاً نہیں حقیقتاً وزارت عظمیٰ انہیں کانٹوں کی سیج محسوس ہوگی ، کرپشن پر قابو پانا ان کے لیے آسان نہ ہوگا ، اقربا پروری سے نجات مشکل ہوگی ، پارٹی میں انتشار و افتراق کا سامنا رہے گا ، اپنے فطری زائچے کے مطابق اور زائچہ ءحلف کے مطابق جس نوعیت کے اختیارات وہ چاہتے ہیں ، شاید وہ نہ مل سکیں اور نتیجے کے طور پر وہ کسی ایسی محاذ آرائی میں الجھ جائیں جو کوئی خطرناک صورت اختیار کرجائے ، سندھ خصوصاً کراچی اور بلوچستان کے معاملات اور دہشت گردی کے مسائل مزید پیچیدہ ہوجائیں ”معاشی دھماکہ“ محض ایک خواب ثابت ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ سابقہ حکومت کی طرح مفاہمتی پالیسیوں پر مجبور ہوکر خدانخواستہ سابقہ حکومت جیسے انجام تک پہنچ جائیں ۔ “
اسی زائچے کے تجزیے میں ہم نے عرض کیا تھا کہ 14 ستمبر 2014 ءتک وہ قمر کے دور اصغر سے گزر رہے ہیں اور اُس وقت تک ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ان کا ”ہنی مون پیریڈ “ ہے، چناں چہ ایسا ہی ہوا، اگست 2014 ءمیں عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار اور ایک طویل دھرنا بھی ان کی حکومت گرانے میں ناکام رہا، حالاں کہ اگست کے آخر اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں صورت حال نہایت سنگین ہوگئی تھی، اسی تجزیے میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا۔
” زائچے کا واحد سعد اور مضبوط سیارہ شمس ہے جو دسویں گھر کا مالک ہوکر ساتویں گھر کیندر میں ہے یہ وزیرا عظم کے لیے ایک سپورٹنگ پوزیشن ہے لہٰذا جب تک کوئی نہایت منحوس دور زائچے میں شروع نہیں ہوتا وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے لیکن وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنا ان کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے ، سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی طرح انہیں بھی وقت سے پہلے فارغ کیا جاسکتا ہے ، راہو کا منحوس دور 14 ستمبر 2015 ءسے شروع ہوگا ۔“
زائچہ ءحلف کے مطابق 15 ستمبر 2015 ءسے راہو کا منحوس دور اصغر شروع ہوچکا ہے،جب کہ دور اکبر دوسرے منحوس زہرہ کا ابتدا ہی سے جاری ہے جو زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم ہوکر آٹھویں گھر میں قابض ہے، راہو اگر زائچے سے منحوس گھروں میں ہو تو اور بھی خطرناک ہوجاتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ راہو کا دور شروع ہوتے ہی وزیراعظم کے لیے نت نئے پیچیدہ مسائل شروع ہوچکے ہیں، خصوصاً تازہ مسئلہ پانامالیکس تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے قدرتی آفات اچانک نازل ہوگئی ہوں، مزید یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید الجھتا ہی جارہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے معقول طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جارہا یا شاید ایسا ممکن ہی نہ ہو، خراب وقت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسئلے کے حل کے لیے نامناسب اور غلط طریقے اختیار کرتا ہے، غلط راستہ دکھانے والوں کی باتوں میں آجاتا ہے۔
جیسا کہ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مئی کا مہینہ ایک سخت مہینہ ہے اور حکومت کے لیے بھی اس مہینے میں مزید پریشانیاں موجود ہیں، خصوصاً مئی کے آخری ہفتے سے تقریباً 15 جون تک وزیراعظم کے لیے ایک نہایت سخت وقت کی نشان دہی ہورہی ہے،جون میں رمضان شریف ہےں اور نواز شریف صاحب یہ عرصہ عام طور پر سعودی عرب میں گزارنا پسند کرتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کی بھرپور سعادتوں کا حصول ممکن ہوسکے، امکان ہے کہ اس بار بھی وہ اس کام میں سستی نہیں کریں گے۔
اصطلاحاتِ جفر
گزشتہ ہفتوں میں علم جفر کے شائقین کی فرمائش پر اس علم سے متعلق بنیادی ابتدائی معلومات فراہم کی گئیں، زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں علم جفر میں استعمال ہونے والی مختلف اصطلاحات کی تشریح مثالوں کے ساتھ کی گئی ہے، امید ہے کہ علم جفر سیکھنے کے شوقین اسے پسند کریں گے۔
تخلیص
اکثر جفری اعمال میں ”تخلیص“ کا لفظ سامنے آتا ہے کہ حروف کی تخلیص کرو، اس کا مطلب حروف کو خالص کرنا ہے یعنی ایسے حروف جن کی تکرار ہورہی ہو، انہیں خارج کرکے اصل حروف برقرار رکھے جائیں، مثال کے طور پر کسی عمل میں نام مع والدہ اور کوئی اسم الٰہی یا آیت لی گئی ہے تو تمام حروف کو جب علیحدہ علیحدہ کرکے لکھا جائے گا تو بعض حروف ایک سے زیادہ مرتبہ آئیں گے، انہیں خارج کرکے اصل حروف کو برقرار رکھنا ”تخلیص“ کہلاتا ہے،مثال اس کی یہ ہے کہ محمد احسن بن زبیدہ کے نام میں مندرجہ ذیل حروف ہیں۔
م ح م د ا ح س ن ز ب ی د ہ 
اب اس سطر میں بعض حرف ایک سے زیادہ مرتبہ موجود ہیں،مثلاً م ح د وغیرہ تخلیص کے نتیجے میں خالص حروف یہ ہوں گے۔
م ح د ا س ن ز ب ی ہ
اس مثال سے تخلیص کا مطلب آپ سمجھ ہوگئے ہوں گے۔
بسط حرفی
یہ بھی ایک جفری اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی بھی نام ، آیت وغیرہ کے حروف کو علیحدہ علیحدہ کرکے لکھنا ہے، جیسا کہ اوپر کی مثال میں محمد احسن بن زبیدہ کے نام کو علیحدہ علیحدہ حروف میں لکھا گیا ہے،بسط حرفی کی دیگر اقسام بھی ہیں مثلاً ”بسط تمازج، بسط تضعیف“ وغیرہ۔
بسط تمازج
بسط تمازج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب کسی عمل میں طالب و مطلوب کے نام کے حروف میں کمی بیشی کا مسئلہ درپیش ہو ، مثلاً مطلوب کے نام مع والدہ میں حروف کم ہوں یا طالب کے نام مع والدہ میں حروف زیادہ ہوں، قصہ مختصر یہ کہ دونوں فریقین کے ناموں میں حروف کی کمی و بیشی کا مسئلہ درپیش ہو تو بسط تمازج کا قانون کام کرتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب ایسی صورت درپیش ہو یعنی ایک کے نام میں حروف کم ہوں اور دوسرے کے نام میں حروف زیادہ ہوں تو دونوں کے ناموں کے حروف علیحدہ علیحدہ الگ لکھ لیے جائیں اور زیادہ حرف کم کرکے دونوں کو برابر کرلیا جائے،اس کے بعد دونوں ناموں کو باہم امتزاج دیا جائے، اس طرح کہ پہلے طالب کے نام کا حرف لیا جائے اور پھر مطلوب کے نام کا، اس طرح ایک نئی سطر دونوں ناموں کے حروف کی تیار ہوگی، اس میں ان حروف کا اضافہ کردیا جائے جو زیادہ تھے لیکن اگر وہ طالب کے نام سے نکالے گئے تھے تو سطر کے شروع میں اضافہ کیا جائے گا، اگر مطلوب کے نام سے نکالے گئے تھے تو سطر کے آخرمیں اضافہ ہوگا، اس حوالے سے حضرت کاش البرنیؒ نے محبت کا ایک سریع التاثیر جفری عمل دیا ہے جو ہمارے بھی تجربے میں آچکا ہے اور اس کے اثر سے انکار ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم یہ عمل یہاں لکھ رہے ہیں۔
جفری عمل محبت
دو افراد کے درمیان محبت اور دوستی کے لیے مندرجہ بالا طریقے کے مطابق دونوں کے نام مع والدہ لے کر دیکھیں کہ ان میں کتنے حروف ہیں، اگر دونوں کے نام مع والدہ کے حروف برابر ہوں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں، بسط تمازج کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اگر کمی بیشی ہے تو مندرجہ بالا بسط تمازج کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے دونوں ناموں کے حروف کی ایک نئی سطر تیار کریں اور پھر اس کی تکسیر جفری کریں اور زمام نکالیں، اس کے بعد تین فتیلہ تیار کریں، پہلا فتیلہ پہلی لائن سے بنایا جائے اور پہلے روز جلایا جائے، دوسرا فتیلہ درمیانی لائنوں سے بنایا جائے اور دوسرے دن جلایا جائے جب کہ تیسرا فتیلہ آخری لائن یعنی زمام سے تیار کیا جائے اور تیسرے روز جلایا جائے، تین روز ہی کے عمل سے مقصد حاصل ہوجائے گا۔
یہی عمل دو افراد کے درمیان مخالفت پیدا کرنے یا جدائی کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے مگر طریقِ عمل میں فرق ہوگا جس کا اظہار ضروری نہیں ہے،ایسے اعمال کے لیے بہتر وقت کا انتخاب بھی ضروری ہوتا ہے۔
بسط تضعیف
بسط تضعیف عام طور پر بلندی ¿ مرتبہ اور ترقیاتی امور کے لیے مستعمل ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نام کے حروف علیحدہ علیحدہ لکھیں اور پھر ہر حرف کی قوت میں اضافہ کریں یعنی اُسے دوگنا کرلیں،مثلاً کسی کا نام احمد ہے، ا ۔ح۔ م۔ د ، اب اس کو بسط تضعیف کے ذریعے دوگنا کیا، الف کا دوگنا ب ہوگا کیوں کہ الف کا عدد 1 ہے اور ب کے عدد 2 ہیں،اسی طرح ح کا عدد 8 ہے اس کا دوگنا 16 ہوگا لہٰذا ی۔و لیں گے ، م کے اعداد 40 ہیں، دوگنا 80 ہوا لہٰذا حرف ف لیا جائے گا، د کا عدد 4 ہے، دوگنا 8 ہوا لہٰذا حرف ح لیا جائے گا،اب بسط تضعیف کے ذریعے احمد کے حروف کی نئی سطر یہ حاصل ہوئی۔
ب۔ ی۔ و۔ف۔ ح،گویا اس طرح نام کے حروف کو ترقی دے کر ان کی قوت میں اضافہ کردیا گیا۔
جفری عملِ ترقی
 اس طریقِ کار کے مطابق بھی ایک جفری عمل نہایت پرتاثیر تجربے میں آیا ہے جو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
یہ عمل چاند کی ابتدائی تاریخوں میں شروع کیا جاتا ہے اور 14 دن کا عمل ہے، چاند کی پہلی تاریخ سے مغرب کے فوراً بعد شروع کیا جائے،نام مع والدہ کے حروف کو بسط تضعیف کے ذریعے دوگنا کرکے جو حروف حاصل ہوں، ان کی تکسیر جفری کرکے ایک فتیلہ تیار کریں اور جس وقت مغرب کے بعد چاند طلوع ہو تو چنبیلی کا تیل کورے چراغ میں ڈال کر اس فتیلے کو جلائیں، کاغذ کی بتی پر صاف روئی لپیٹ کر چراغ میں رکھیں، اس کے بعد بسط تضعیف کے بعد جو حروف حاصل ہوئے ہیں، ان کے اعداد نکالیں اور اسی تعداد کے مطابق اسم الٰہی ”یا متعالی“ کا ورد کریں، اگر پڑھائی کے دوران تعداد جلد پوری ہوجائے اور فتیلہ پورا نہ جل سکے تو کوئی حرج نہیں،اس کو بچا کر احتیاط سے رکھ لیں اور دوسرے دن کی پڑھائی میں شامل کرلیں، اگر پورا جل جائے تو دوسرے دن نیا فتیلہ تیار کریں،اسی طرح 14 روز مکمل کریں، انشاءاللہ ترقی ہوگی اور زندگی میں نمایاں کامیابی حاصل ہوں گی،حضرت کاش البرنیؒ نے اس عمل کو دست غیب کا عمل کہا ہے۔
تکسیرِ جفری
مندرجہ بالا عمل میں علم جفر کی مزید اصطلاحات کا ذکر ہوا ہے،اس کی وضاحت بھی ضروری ہے،مثلاً تکسیر جفری کا ذکر ہوا ہے، اگرچہ اس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن تمام اقسام کا ذکر ضروری نہیں ہے،جس سطر کی تکسیر کرنا مقصود ہو ، اُسے علیحدہ علیحدہ حروف میں لکھ کر ایک حرف بائیں جانب سے لیں اور ایک دائیں جانب سے، اس طرح ایک نئی سطر وجود میں آئے گی، اسی عمل کو اس دوسری سطر پر بھی دہرائیں تو ایک تیسری سطر وجود میں آئے گی، یہی عمل ہر نئی سطر پر دہراتے رہیں، یہاں تک کہ پہلی سطر دوبارہ وجود میں آجائے، بس اب تکسیر کا عمل مکمل ہوا، اس آخری سطر سے پہلے جو لائن ہوگی، اسے زمام کہا جاتا ہے،ایک مثال کے ذریعے طریق کار کو سمجھ لیں۔
مثلاً زاہد کی والدہ کا نام زبیدہ ہے، نام کے علیحدہ علیحدہ حروف ز، ا،ہ، د، ز، ب، ی، د،ہ ہیں،ان حروف کی تکسیر جفری کی مثال یہ ہوگی لیکن مثال میں صرف زاہد کے نام کی تکسیر دی جارہی ہے۔
سطر اول: ز ا ہ د 
د ز ہ ا
زمام: ا د ہ ز
سطر آخر: ز ا ہ د
تکسیر جفری کے اور بھی بہت سے قاعدے اور قانون ہیں لیکن یہ قاعدہ عام اور سادہ ہے،دیگر قواعد عموماً علم جفر حصہ اخبار میں زیادہ مستعمل ہیں یا پھر کسی مخصوص عمل میں مخصوص تکسیری طریقہ اختیار کیا جاتا ہے،علم جفر کی اکثر کتابوں میں دیگر تکسیری طریقے موجود ہیں۔
اقسام حروف
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے،علمائے جفر نے حروف کے بارے میں جو تحقیقی کام کیا ہے،وہ نہایت قابل قدر ہے،حروف کے ہر ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی اقسام بھی مقرر کی گئی ہےں ، علم جفر کے طالب علم کو حروف کی جملہ اقسام کے بارے میں مکمل معلومات ہونا چاہیے۔
ہم یہاں حروف کی نمایاں اور مشہور اقسام بیان کر رہے ہیں۔
حروف صوامت: یہ کل 13 حروف ہیں جن میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔
ا۔ ح۔د۔ر۔س۔ص۔ط۔ع۔ک۔ل۔م۔و۔ہ۔
حروف صوامت کو گُپ چُپ کے حروف کہا جاتا ہے،عام طور پر استحکام ، روک تھام اور بندش کے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں،اساتذہ نے اس کے علاوہ بھی ان سے کام لینے کے طریقے ایجاد کیے ہیں جو دیگر اعمال میں بھی معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، زندگی کی تقریباً تین چوتھائی ضروریات میں ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔
حروف ناطق: یہ ایسے حروف ہیں جن میں نقطہ ضروری ہے، ان کی کل تعداد 15 ہے۔
 ب۔ ت۔ ث۔ ج۔ خ۔ذ۔ز۔ش۔ض۔ ظ۔ غ۔ ف۔ق۔ن اور ی۔
 عام طور پر ”ی، ے“ مفرد انداز میں لکھا جائے تو اس پر نقطے نہیں ہوتے لیکن درحقیقت ی کے نیچے دو نقطے ہوتے ہیں جو اس وقت ظاہر ہوتے ہیں، جب اسے دوسرے حرفوں کے ساتھ ملاکر لکھا جاتا ہے۔
حروف ناطق ، حروف صوامت کی ضد ہےں، اگر صوامت سے بندش کے کام لیے جاتے ہیں تو حروف ناطق سے کشادگی اور بندشوں کو کھولنے میں مدد لی جاتی ہے۔
حروف نورانی: یہ تعداد میں 14 ہیں۔
ح۔ ر۔س۔ص۔ط۔ع۔ ک۔ق۔ل۔م۔ن۔و۔ہ۔ی۔ا
قرآن کریم میں جو حروف مقطعات مختلف سورتوں میں استعمال ہوئے ہیں،وہ انہی حروف نورانی پر مشتمل ہےں،اس اعتبار سے انہیں نہایت مقدس اور متبرک حروف قرار دیا گیا ہے، تحفظ ، قوت و غلبہ، کشادگی ¿ رزق اور دیگر بہت سے امور میں ان سے کام لیا جاتا ہے۔
حروف ظلمانی: یہ حروف نورانی کی ضد ہیں۔
 ب۔ت۔ ث۔ ج۔ خ۔ د۔ ذ۔ ز۔ ش۔ ض۔ ظ۔غ اورف
یہ حروف اعمال شر میں مستعمل ہیں جن کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا ہوسکتا ہے لیکن اساتذہ نے ان کے ذریعے اعمال خیر میں بھی مدد لی ہے اور ایسے طریقے تعلیم کیے ہیں جو مثبت ہیں۔
حروف تواخیہ: علم جفر کی اصطلاح میں حروف تواخیہ ایسے حروف کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی شکل و صورت کے ہوں اور دو یا دو سے زیادہ یا تین ہوں۔
 جیسا کہ ب ، ت، ث۔
ج، ح،خ۔
د،ذ۔
ر،ز۔
س،ش۔ 
ص،ض۔
 ط، ظ۔
ع،غ۔
حروف مکتوبی: ایسے حروف کو کہا جاتا ہے جنہیں الفاظ میں بیان کیا جائے یا لکھا جائے تو ان کا پہلا اور آخری حرف ایک ہی ہو اور وہ حروف تعداد میں صرف 3 ہیں، میم، نون، واو ¿۔ان تینوں حروف میں پہلا اور آخری حرف ایک ہی ہے۔
حروف مسروری: یہ ایسے حروف ہیں جنہیں اگر لکھا جائے تو دو ہی حروف پر مشتمل ہوں، جیسا کہ با۔ تا۔ ثا۔ حا۔ را۔زا۔طا۔ظا۔ہا۔یا وغیرہ۔
اساس و نظیرہ
یہ بھی علم جفر کا ایک قاعدہ ہے جسے نہایت کارآمد سمجھا جاتا ہے،بعض اعمال میں اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے،چناں چہ اسے یاد رکھنا چاہیے۔
تمام حروف 28ہیں جنہیں دو حصوں میں تقسیم کردیا گیاہے، الف سے نون تک 14 حروف کو اساس قرار دیا گیا ہے اور سین سے غین تک 14 حروف کو نظیرہ کہا گیا ہے لہٰذا جب کسی عمل میں کہا جائے کہ اصل حروف کے نظیرہ حروف سے کام لیا جائے تو یہ طریقہ کام آتا ہے،اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر حرف کا 15 واں حرف اس کا نظیرہ ہے مثلاً الف کا نظیرہ حرف سین ہوگا، اسی طرح بے کا نظیرہ عین ہوگا، اس کا تفصیلی چارٹ بھی دیا جارہا ہے۔
اساس: ا ب ج د ہ و ز ح ط ی ک ل م ن 
نظیرہ:س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ
مزید اصطلاحاتِ جفر
علم جفر میں اصطلاحات کی بھرمار ہے،چیدہ چیدہ اصطلاحات اور ان کے معنی و مفہوم بیان کردیے گئے ہیں، مزید بھی کچھ اصطلاحات کے بارے میں وضاحت کی جارہی ہے۔
جمل یا جمل کبیر: اس سے مراد یہ ہے کہ عبارتی حروف کو ابجد قمری کے ذریعے سے بسط حرفی کرکے اس کے اعداد لیے جائیں۔
مفصل اعداد: اس کی تعریف یہ ہے کہ بسط ملفوظی کیا جائے اور اس کے اعداد لیے جائیں،مثلاً اگر نام فہد ہے تو اسے ملفوظی طریقے پر لکھا جائے جیسے کہ فا، حا، دال اور پھر تمام حروف کے اعداد لیے جائیں، اس طرح فہد کے اعداد 125 ہوں گے۔
مسبوط اعداد: اس کا مطلب یہ ہے کہ حروف جس قدر بھی ہوں، اُن کے اعداد بسط عددی کے ذریعے حاصل کیے جائیں۔
ترفع عددی: ترفع سے مراد ترقی دینا یا آگے بڑھانا ہے لہٰذا حروف کے اعداد کو ترقی دی جائے یعنی اکائی کے اعداد کو دہائی میں اور دہائی کے اعداد کو سیکڑے میں تبدیل کردیا جائے تو یہ ترفع عددی کہلائے گا۔
ترفع حرفی: اس طریق کار میں حروف کو ترقی دینا مقصود ہے مثلاً الف کی ترقی ب میں اور ب کی ترقی ج میں ہے، اسی طرح ترتیب وار ہر حرف کو ترقی دی جائے گی اور اس حرف کے مراتب بلند ہوتے چلے جائیں گے۔
ترفع طبعی: ضرورت کے تحت حروف کی عنصری حیثیت میں تبدیلی کی جائے ، تمام حروف آتشی، خاکی، آبی اور بادی ہیں، انہیں ضرورت کے مطابق کسی دوسرے عنصری حروف سے تبدیل کردیا جائے، اسی تبدیلی کو ترفع طبعی کہا جاتا ہے۔
ترفع اقراری: حروف کی ترقی کی ایک شکل یہ بھی ہے جسے اقراری کہا جاتا ہے،اس طریقے میں حرف کے بعد آنے والے تیسرے حرف سے ترقی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے،مثلاً الف کے بعد اگرچہ ب ہے مگر تیسرا حرف ج لیا جائے تو یہ ترفع اقراری کہلائے گا، اسی طرح بے کا ترفع د میں ہوگا اور دال کا واو ¿ میں ، وغیرہ وغیرہ۔
مراتب عددی: اس طریق کار میں کسی نام یا اسم و آیت وغیرہ کے حروف سے جو اعداد حاصل ہوتے ہیں، انہیں مراتب کے اعتبار سے ترتیب دے کر لکھا جاتا ہے،مثلاً نام رزاق ہے تو اعداد کی تفصیل یہ ہوگی، ۰۰۲، ۷، ۱، ۰۰۱۔
مرتبے کے اعتبار سے ترتیب دیا تو ،ر کے عدد ۰۰۲ ہیں تو وہ افضل ہے لہٰذا مراتب عددی کے مطابق ترتیب یہ ہوگی، ۰۰۲، ۰۰۱، ۷، ۱۔
اسی طرح اگر طالب و مطلوب کا نام لیا جائے گا تو اس میں بھی مراتب عددی کا خیال رکھا جائے گا، یہ قواعد تکسیر کے موقع پر زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس قانون کے تحت مراتب علوی اور مراتب سفلی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے،ان مراتب کی تفصیل سے گریز کیا جارہا ہے کیوں کہ جفر کی تمام کتابوں میں یہ تفاصیل موجود ہےں ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اس کے علاوہ بھی مزید اصطلاحاتِ جفر موجود ہے جن کا بیان یہاں غیر ضروری ہے، بہت سی اصطلاحات کا تعلق علم جفر کے حصہ ءاخبار سے ہے جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔
علم جفر کے موضوع پر ابتدائی نوعیت کے بنیادی اصول و قواعد کا بیان جاری ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا
آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف
کوئی پتھر بتائیں
آر، زیڈ، کراچی سے لکھتی ہیں ”میں آپ کا کالم پچھلے 15 سال سے پڑھ رہی ہوں اور اس کی رہنمائی میں بچوں کی تعلیم مکمل کی ہے،اب میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ زائچے کی روشنی میں مجھے اور میرے شوہر کو کوئی پتھر بتائیں،ان کی سیلری کم ہے، اب میں بیمار رہنے لگی ہوں، ٹینشن کی وجہ سے“
جواب: نکاح کی تاریخ اور وقت کے مطابق برج سنبلہ طالع میں طلوع ہے اور اس کا حاکم عطارد زائچے کے چھٹے گھر میں کمزور بھی ہے اور غروب بھی ، بے شک سنبلہ ایک خاکی برج ہے اور انسان کو مسلسل کام اور محنت کی ترغیب دیتا ہے جس کے نتیجے میں اپنے شوہر کے ساتھ آپ نے بھی سخت محنت اور جدوجہد سے کام لیا، عطارد کی کمزوری سے اعصابی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ موجود ہیں،لہٰذا آپ کو زمرد یا عمدہ قسم کا فیروزہ پہننا چاہیے، شوہر کے لیے بھی یہی پتھر بہتر ہوگا لیکن پہننے کے لیے مناسب وقت ہم سے معلوم کرلیجیے گا، کم از کم مئی کے مہینے میں عطارد کا پتھر پہننے کے لیے کوئی اچھا ٹائم نہیں ہے، آپ کو اپنا اور شوہر کا صدقہ بھی پابندی سے ہفتہ، اتوار اور منگل کو دیتے رہنا چاہیے۔
نکاح کا وقت اور تاریخ
اے، اے میرپور خاص سے لکھتی ہیں ”میری ایک دوست کی پہلی شادی 23 سال کی عمر میں ہوئی اور 10 سال بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر دوسری شادی ہوئی لیکن وہ 6 ماہ بھی نہیں چل سکی اور طلاق ہوگئی، اب اس کی تیسری شادی ہوئی ہے، میں نے اسے شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کیوں کہ مجھے خدشات تھے ، میں اُس کی شادی کی کنفرم تاریخ اور ٹائم ارسال کر رہی ہوں، یہ تاریخ اور ٹائم لڑکے نے اپنے پیر صاحب سے نکلوایا ہے،مجھے آپ کے جواب کا بے چینی سے انتظار رہے گا“
جواب: آپ پابندی سے ہمارا کالم پڑھتی ہیں لیکن حیرت ہے کہ آپ نے غور نہیں کیا کہ جس وقت پر نکاح ہوا اور جو تاریخ نکاح کے لیے لڑکے کے پیر صاحب نے تجویز کی، یہ تاریخ اور ٹائم تو ہم نے اپنے کالم میں دیا تھا اور اس وقت پر لوح سعادت الکبریٰ تیار کرنے کی ہدایت بھی دی تھی،شاید مارچ یا اپریل میں کسی نے نکاح کے لیے ٹائم پوچھا تھا تو اس وقت بھی ہم نے یہی ٹائم اور تاریخ بتائی تھی، ممکن ہے لڑکے کے پیر صاحب بھی ہمارا کالم پابندی سے پڑھتے ہوں، بہر حال اگر نکاح میرپورخاص میں ہوا ہے اور شام 05:40 pm کے بعد مغرب تک ہوا ہے تو یہ بہت مبارک اور سعد وقت تھا، آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انشاءاللہ شادی کامیاب رہے گی، اگر نکاح کا وقت مذکورہ بالا ٹائم سے پہلے ہے تو پھر آپ کے اندیشے درست ثابت ہوں گے، بہتر ہوگا کہ وقت کی درستی کے لیے مزید تحقیق کرلیں۔
پورے پاکستان میں یہ وقت ہمارے علاوہ صرف وہی لوگ تجویز کرسکتے ہیں جو ہمارے طریقہ ءکار کی پیروی کرتے ہوں، ہماری کتاب پیش گوئی کا فن جن کے مطالعے میں ہو، عام نوعیت کے پیر فقیر یا نجومی حضرات تو اس وقت کی درست تشریح بھی نہیں کرسکتے،میرپورخاص میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہمارے طریق کار کی پیروی کرتے ہیں اور ہم سے رابطے میں بھی رہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں