ہفتہ، 21 دسمبر، 2019

نئے سال 2020 ءمیں پاکستان کے حالات و واقعات پر ایک نظر

نئے چیلنجز، آئینی بحران اور موجودہ سیاسی بساط لپٹنے کا امکان

پاکستان 







نئے سال 2020 ءکا آغاز غیر معمولی سیاروی قران سے ہورہا ہے جو زائچے کے آٹھویں گھر میں واقع ہوگا، زائچے میں مشتری کا دور اکبر نومبر 2008 ءسے جاری ہے، مشتری زائچے کا فعلی منحوس سیارہ ہے، جب سے یہ دور شروع ہوا ہے پاکستان روز بہ روز تنزل کی جانب بڑھ رہا ہے اور ملک کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا، خراب دور میں قومی قیادتیں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، گزشتہ سالوں میں ایسا ہی کچھ ہوا ہے اور اب بھی ہورہا ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان اگرچہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر نتائج خوش کن تاحال نہیں ہیں اور نیا سال بھی زیادہ خوش آئند نظر نہیں آتا، روز بہ روز صورت حال بگڑتی جارہی ہے اور تادم تحریر ملک بدترین سیاسی اور انتظامی طور پر بدنظمی اور انتشار کا شکار ہے، ستمبر اور اکتوبر 2019 ءوزیراعظم اور ملک کے لیے خاصے تشویش ناک مہینے تھے، اسمبلیاں عضو معطل ہوچکی ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی، دوسری طرف بھارت سے جنگ کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، کشمیر کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے، بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جس کا نتیجہ خود بھارت کے لیے کسی صورت بہتر نہیں ہوگا،دسمبر میں ہونے والا عظیم سیاروی قران برج قوس میں ہورہا ہے جو آئین و قانون ، مذہب اور نظریات کا برج ہے،بھارت اور پاکستان کے زائچے میں یہ قران آٹھویں گھر میں ہورہا ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں آئینی بحران جنم لے رہے ہیں، بھارت میں بھی آئینی ترمیم پر شدید عوامی ردعمل سامنے آرہا ہے اور پورے ملک میں احتجاج شروع ہوچکا ہے، یہی صورت حال پاکستان کی ہے ،پہلے آرمی چیف کی تقرری پر آئینی سوالات اٹھے اور سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے ، نئی آئین سازی کو ضروری سمجھا اور اب سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر غداری کے الزام میں سزائے موت کا فیصلہ متنازع صورت اختیار کرنے جارہا ہے، قصہ مختصر یہ کہ بھارت اور پاکستان آنے والے سالوں میں ایک بڑے آئینی اور نظریاتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں، بے شک ایسے بحران عارضی طور پر تشویش ناک ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ایسے بحرانوں سے گزر کر ہی ملک و قوم عروج و ترقی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے۔
 اس صورت حال کے ساتھ ہم نئے سال 2020 ءکا استقبال کریں گے اور بقول شاعر 
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تِری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

جنوری

جنوری کا آغازآٹھویں گھر کے سیاروی اجتماع سے ہورہا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ نویں دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اس اجتماع میں نحس اثرات سے محفوظ ہے لیکن بہر حال آٹھویں گھر میں اچھی پوزیشن نہیں رکھتا، چناں چہ جنوری میں بھی صورت حال میں کسی مثبت تبدیلی کا امکان نظر نہیںآتا، مشتری ، عطارد وغیرہ کی پوزیشن میڈیا پر دباو ¿ کی صورت حال برقرار رکھے گی، البتہ انتظامی سطح پر مثبت اقدام اور فیصلے ہوسکیں گے، معاشی طور پر حالات بدستور پریشان کن ہی رہیں گے، دیگر ممالک سے دباو ¿ اور تناو ¿ جاری رہے گا،بھارت سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا، ساتھ ہی سرحدوں کی صورت حال بھی تشویش کا باعث رہے گی،اسمبلیاں ٹوٹنے کا خطرہ بدستور موجود رہے گا،دسمبر کے آخر سے 5 جنوری تک حکومت کے لیے نئے چیلنج درپیش رہیں گے۔

فروری

نہایت اہم تبدیلی تقریباً ڈھائی سال بعد زائچہ ءپاکستان میں جنوری کے آخر میں ہوگی یعنی نویں دسویں کا حاکم سیاہ زحل آٹھویں گھر سے نکل کر نویں گھر میں داخل ہوگا جو اس کا ذاتی گھر ہے یہ نہایت خوش کن اور امید افزا موومنٹ ہوگی جس کے سعد اثرات آئندہ تقریباً ساڑھے سات سال تک جاری رہیں گے، مزید یہ کہ سیارہ مشتری اپنے ذاتی گھر برج قوس میں ایک سال کے لیے آجائے گا، یہ بھی ایک مثبت قیام ہوگا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دو بڑی سیاروی تبدیلیاں آگے چل کر ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کریں گی، مشتری سارا سال آٹھویں گھر میں رہے گا، جہاں پہلے سے سیارہ پلوٹو اور کیتو موجود ہں، آگے چل کر جب مشتری ان دونوں اہم سیاروں سے قران کرے گا تو اہم واقعات رونما ہوں گے، مجموعی طور پر مشتری کا ایک سالہ قیام ملک میں زرعی ترقی اور زیر زمین قدرتی ذخائر سے استفادے کا رجحان لائے گا اور اس سلسلے میں معقول پیش رفت نظر آئے گی۔اس مہینے میں سیارہ مریخ بھی آٹھویں گھر میں داخل ہوگا اور خصوصاً دس فروری سے 20 فروری کے درمیان اہم سیاسی واقعات رونما ہوسکتے ہیں، معاشی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے اور سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

مارچ

مارچ کا مہینہ بھی واقعاتی اعتبار سے نہایت اہم ہے، کیتو کے بعد سیارہ مریخ اس ماہ سیارہ مشتری سے قران کرے گا، اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ ہنگامہ آرائی کا شکار رہے گی، بعض آئینی و قانونی مسائل پیچیدہ رخ اختیار کرسکتے ہیں، اسی مہینے کے آخر سے زائچے میں سیارہ قمر کا دور اصغر شروع ہوگا لہٰذا انداز حکمرانی میں جارحانہ طور طریقے نمایاں ہوسکتے ہیں، فروری تا مارچ پارلیمنٹ کے لیے بھی مشکل مہینے ثابت ہوسکتے ہیں، اس دوران میں پارلیمنٹ کے وجود کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، جمہوریت کی بساط لپٹ سکتی ہے اور وزیراعظم کے لیے سیکورٹی رسک بڑھ سکتے ہیں۔

اپریل

اپریل کا مہینہ مارچ کا تسلسل ہوگا، گویا گزشتہ مہینوں میں جو مسائل پیدا ہوئے ہوں گے،وہ اپنی انتہا کو پہنچیں گے، نئے الیکشن کی باتیں ہوسکتی ہیں، آئینی اور قانونی معاملات میں نئی نئی موشگافیاں سامنے آئیں گی، عدلیہ کا کردار اہمیت اختیار کرے گا،بعض اہم مقدمات کے فیصلے ہوسکتے ہیں، عدلیہ میں نئی اصلاحات یا تبدیلیوں کا امکان ہوگا، اسی طرح بیوروکریسی ، پولیس اور فوج میں بھی اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آسکتی ہیں، ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی باز گشت بڑھ جائے گی اور اس حوالے سے نئی آئین سازی پر زور دیا جائے گا، نئے اہم فیصلے و اقدام اس مہینے میں نمایاں ہوسکتے ہیں، خیال رہے کہ سیارہ مشتری مختصر مدت کے لیے زائچے کے نویں گھر میں داخل ہوگا اور پیدائشی سیارہ زہرہ سے قران کرے گا جس کے نتیجے میں انتظامیہ میں خاصی ردوبدل اور اکھاڑ پچھاڑ ہوسکتی ہے، نئی آئین سازی کے مسائل بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔

مئی

مئی کے مہینے کی ہنگامہ خیزیاں نمایاں رہیں گی اور اس مہینے میں بھی آئینی و قانونی محاذ آرائیاں عروج پر ہوں گی، عوام کے لیے یہ ایک مشکل مہینہ ہوگا، خصوصاً توانائی کے بحران میں اضافہ ہوگا، مارچ تا مئی ملک کی صورت حال کسی ایمرجنسی کی سی معلوم ہوتی ہے، ان مہینوں میں جمہوری بساط لپٹنے کے خطرات بہت زیادہ ہیں اور نئے انتخابات کی طرف ملک بڑھتا نظر آتا ہے یا کسی قومی حکومت کے قیام کی تجاویز سامنے آسکتی ہیں، یہ تمام ہنگامہ آرائی بہر حال کسی حتمی نتیجے تک جاتی نظر نہیں آتی، البتہ صورت حال اس حد تک تشویش ناک ہوسکتی ہے کہ آنے والے مہینوں میں حکومت کے لیے نئے چیلنج کھڑے ہوسکتے ہیں، خاص طور پر آئینی و قانونی معاملات میں۔

جون، جولائی، اگست

جون میں بھی سیارہ مشتری کی نویں گھر میں پوزیشن نہایت خطرناک اور انتظامی طور پر اکھاڑ پچھاڑ لانے والی ہے خصوصاً سول و ملٹری بیوروکریسی کا کردار نہایت اہم ہوگا، اس ماہ سے راہو کیتو بھی اہم پوزیشن اختیار کریں گے جس کی وجہ سے زائچے کے اہم گھر بری طرح متاثر ہوں گے، معاشی ، انتظامی امور کی صورت حال اطمینان بخش نہ ہوگی، سربراہ مملکت مسلسل دباو ¿ اور مسائل کا شکار ہوں گے اور یہ سلسلہ اگست تک جاری رہے گا، ان تین مہینوں میں ناخوش گوار صورت حالات اپنے عروج پر پہنچ کر مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا امکان موجود ہے کیوں کہ اگست ہی میں پاکستان کا یوم آزادی بھی ہوگا اور اسی ماہ میں سیارہ مریخ برج حمل میں بحالت رجعت ہوگا جو زائچے کا گیارھواں گھر ہے، یہ کسی شدید نوعیت کی بیرونی مداخلت کی نشان دہی کرتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین مہینے ملک کو کسی نئے سیٹ اپ کی طرف لے جاسکتے ہیں جو جمہوری بھی ہوسکتا ہے اور غیر جمہوری بھی، سیارہ مریخ کی پوزیشن اسمبلیاں ٹوٹنے کا خطرہ ظاہر کرتی ہے۔

ستمبر، اکتوبر

ستمبر ایک نہایت اہم مہینہ ہے، اس مہینے میں راہو کیتو اپنے برج تبدیل کریں گے اور پاکستان کے پہلے اور ساتویں گھر میں داخل ہوں گے جو ان کے شرف کے گھر ہیں، یہ بڑی مثبت تبدیلیاں ہیں جو آئندہ اہم کردار ادا کریں گی لیکن خیال رہے کہ مثبت تبدیلیاں بہر حال بہت سے منفی حالات سے گزر کر ہی سامنے آتی ہیں، چوں کہ سیارہ مریخ کی پوزیشن اگست ہی سے ناموافق ہوگی اور خصوصاً 30 اگست سے 22 ستمبر تک سیارہ مریخ ایسی خطرناک پوزیشن پر ہوگا جو ملک میں کسی ایمرجنسی پلس ٹائپ مارشلائی کیفیت کی نشان دہی ہے ، اس وقت میں پڑوسی ممالک سے شدید نوعیت کی محاذ آرائی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا خطرہ ہے کہ ہم کسی بیرونی محاذ آرائی اور جنگ جیسی صورت حال سے دوچار ہوں، جنگ بہر حال کسی بھی ملک کے لیے بہتر نہیں ہوتی۔

نومبر،دسمبر

نومبر کے آخر سے سیارہ مشتری زائچے کے نویں گھر میں داخل ہوگا جو اس کا برج ہبوط ہے، یہاں رہتے ہوئے مشتری کا قران سیارہ زحل سے ہوگا، یہ صورت حال بیرون ملک تجارت اور سربراہ مملکت یا کابینہ کے لیے خطرناک ہوگی، کوئی نیا آئینی بحران یا عدلیہ سے متعلق مشکل صورت حال سامنے آسکتی ہے، اس وقت میں سخت اور مشکل فیصلے ہوسکتے ہیں، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار نمایاں رہے گا، یہی صورت حال دسمبر تک نئے ہنگاموں کو جنم دے گی، وفاق اور صوبوں میں نئی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، اندرونی اور بیرونی دشمن ملک کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرسکتے ہیں گویا سال 2020 ءمکمل طور پر ایک سخت اور صبر آزما سال ثابت ہوسکتا ہے، اس حوالے سے زیادہ تفصیلی تجزیہ ہر نئے ماہ کے آغاز پر پیش کیا جاتا رہے گا۔
عزیزان من! اس نئی صدی میں گزشتہ اور موجودہ سال زائچہ ءپاکستان کے مطابق یقیناً انتہائی اہم ہےں جو ہمیں شاید کسی نئے سیٹ اپ کی طرف لے جارہے ہیں، گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے جو بویا ہے ، وہی ہم کاٹ رہے ہیں، اس حوالے سے نہایت اہم سوال یہ ہے کہ دنیا کے اور ممالک بھی ایسے مشکل ادوار سے گزرتے ہیں ، اگر مخلص اور دانش ور قیادت انھیں میسر ہو تو انھیں اپنا وجود قائم رکھنے میں آسانی ہوتی ہے، اس کے برعکس صورت حال میں نتیجہ بھی برعکس ہی ہوتا ہے، پاکستان ، بھارت، مصر، ملائشیا، میکسیکو،بحرین وغیرہ اب مستقبل میں جس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں اس میں کسی مخلص اور محب وطن قیادت کی ضرورت انتہائی شدید ہوگی،پاکستان میں یقیناً وزیراعظم عمران خان سے لوگوں نے مثبت توقعات وابستہ کی ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی برس ہا برس سے جس رنگ ڈھنگ کی عادی ہوچکی ہے اسے تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے، یہ صورت حال ملک کو دوبارہ کسی بدترین مارشل لاءیا کسی غیر ملکی استبدادی نظام کی طرف لے جاسکتی ہے، ہمیں بنگلہ دیش سے سبق سیکھنا چاہیے۔
آخر میں اس مشہور شعر پر اختتام مناسب ہے جو پہلی بار ہماری نظر سے 1971 ءمیں سقوط ڈھاکا کے بعد گزرا تھا۔
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں