اتوار، 19 مارچ، 2017

انسانی ذہن کی کرشمہ کاریاں اور اکبر شاہ جن


انسان کو کسی بھی دوسری مخلوق سے کمتر یا کمزور سمجھنا غلط ہے
ملک کی صورت حال جوں کی توں ہے، اگرچہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی مصروفیات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے،اپنے خطابات میں وہ عوام کو خوش خبریاں دے رہے ہیں، مستقبل کے روشن منصوبوں سے ملک میں پھیلنے والی ترقی کی لہر سے آگاہ کر رہے ہیں ۔
حالات کے ایک ہی جگہ ٹھہر جانے کی سب سے بڑی وجہ پاناما کیس کا فیصلہ ہے جو معزز جج صاحبان نے تادم تحریر نہیں سنایا ہے، شنید ہے کہ شاید آئندہ ہفتے تک یہ فیصلہ سنادیا جائے،اس حوالے سے ایسی ایسی باتیں کہی جارہی ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نہایت چیلنجنگ ہیں، اپوزیشن یعنی عمران خان گروپ کیا کہہ رہا ہے، اسے تو نظر انداز کردیجیے لیکن دیگر اہلِ نظروفکر اس فیصلے کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تاریخی ہوگا اور یہ بات جج صاحبان بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم ایسا فیصلہ دیں گے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
گویا اس فیصلے کے بعد پاکستانی سیاست کا نیا رُخ مقرر ہوگا، پاکستان کے زائچے کے مطابق سیارہ زحل حکومت اور وزیراعظم کی نشان دہی کرتا ہے جو اس وقت زائچے میں اچھی پوزیشن میں نہیں ہے،مزید یہ کہ سیارہ شمس بھی وزیراعظم اور دیگر صاحب عہدہ و مرتبہ یا صاحبانِ اقتدار کی نمائندگی کرتا ہے،اس کی پوزیشن بھی اطمینان بخش نہیں ہے،پاکستان کے زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر اور سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،یہ دونوں زائچے کے ضرر رساں گویا فعلی منحوس سیارگان ہیں،اس سارے تناظر میں جو بھی فیصلہ آئے گا وہ کسی طور بھی حکومت اور وزیراعظم کے لیے اطمینان بخش نظر نہیں آتا، خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف کی پوزیشن خاصی نازک نظر آتی ہے اور اس حوالے سے آنے والا وقت ان کے لیے مزید مشکلات میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے۔
زائچہ ءپاکستان کے مطابق پاکستان کی داخلی اور خارجی صورت حال میں بھی کوئی اطمینان بخش صورت 15 مئی تک نظر نہیں آتی لہٰذا بقول فیض اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔
اس مختصر اشاریے کے بعد آئیے اُس موضوع کی طرف جو تاحال ادھورا ہے یعنی جنات اور انسان کے درمیان روابط و تعلقات، اس سے پہلے مضامین میں بھی اس حوالے سے کافی تفصیلی گفتگو ہوتی رہی ہے جسے ہمارے قارئین نے پسند بھی کیا ہے اور اس موضوع پر مزید واقفیت کے خواہش مند ہیں۔
اب تک جنات کے موضوع پر جس قدر گفتگو ہوئی اس کا لب لباب یہ ہے کہ جن ایک آتشی مخلوق ہے اور اس کا وجود مذہب کی رو سے ہی نہیں، سائنس کی روشنی میں بھی ثابت ہے، یہ مخلوق اللہ کی پیدا کردہ اور انسان سے بھی قدیم ہے، ان کے درمیان مختلف قومیں، نسلیں، مذہبی عقائد و نظریات اور قبائلی نظام موجود ہیں، ہر قبیلہ یا نسل اپنی مخصوص طرز بود وباش، پسند نا پسند وغیرہ رکھتی ہے، انسانوں سے ان کے مراسم و تعلقات ممکن ہیں، حد یہ ہے کہ دونوں مخلوقات کے مو ¿نث اور مذکر افراد باہم ازدواجی تعلقات بھی قائم کرسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اولاد کی پیدائش بھی ممکن ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کوئی عام بات ہے؟ انسانوں اور جنات کے درمیان روابط و تعلقات عام زندگی کا حصہ ہیں اور اگر حصہ ہیں جیسا کہ بعض واقعات سے ثابت ہے تو کتنے فیصد؟
اس سوال کا جواب ہم اس بحث کے آغاز میں ہی دے چکے ہیں کہ صرف ایک فیصد، بعض ماہرین کے نزدیک تو اس سے بھی کم یعنی ہزاروں بلکہ لاکھوں آسیب و جنات کے کیسوں میں غالب اکثریت تو ذہنی و نفسیاتی امراض کی ہوتی ہے، انسانی ذہن بھی تو کسی جناتی پُراسراریت سے کم درجہ نہیں رکھتا، اس کا ثبوت وہ انسانی کارنامے ہیں جن پر دنیا آج تک حیران ہے یا انسان پر وارد ہونے والی ایسی کیفیات ہیں جن کے زیر اثر وہ سپر نیچرل قوتوں کا اظہار کرتا ہے۔ کیا مارشل آرٹ کا ماہر اپنی جسمانی قوت کے بل بوتے پر ہاتھ کی ہتھیلی کے ایک ہی وار سے برف کی سل کے دو ٹکڑے کرتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
ایک عام یا خاص جسمانی قوت رکھنے والے انسان کے لیے یہ ممکن نہیں، خواہ وہ رستم زماں ہی کیوں نہ ہو، مارشل آرٹ کا ماہر اپنے خیال اور ارادے کی قوت کو ایک مرکز پر مرتکز کرکے یہ کام اپنے ذہن سے لیتا ہے، اس کی قوتِ خیال یہ کارنامہ انجام دیتی ہے،یاد رکھیے !کائنات میں قوتِ خیال سے بڑی کوئی قوت نہیں ہے اور اس قوت کو مو ¿ثر طور پر رو بہ عمل لانے کے لیے کامل یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔
انسانی ذہن کتنا پیچیدہ ہے، کتنا گہرا اور کتنا تہ دار ہے، اس کا اندازہ ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی اور مستقبل بینی کے مظاہرے دیکھنے والے بہ خوبی کرسکتے ہیں، ایک مثال ملاحظہ کیجیے کہ اگر ہپناٹزم کے ذریعے کسی شخص پر تنویمی نیند طاری کردی جائے اور اس نیند کو گہرا اور گہرا اور گہرا کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ معمول کی پوری ذہنی، دماغی اور اعصابی شخصیت آپ کی گرفت میں آجائے اور وہ آپ کی نگرانی اور حکم پر چلنے لگے، اس عالم میں آپ معمول کے جسم اور نفس پر جو کیفیت اور حالت طاری کرنا چاہیں گے، وہ طاری ہوجائے گی، آپ اس کا آپریشن کردیجیے(مغرب میں بذریعہ ہپناٹزم آپریشن کیے گئے ہیں) اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی، آپ اس کے جسم پر جو مشق ستم چاہے کریں، اسے کوئی احساس نہ ہوگا اور یہ سب کچھ وہ ان ہپناٹک سجیشنز کی وجہ سے برداشت کرجائے گا جو اسے دیے گئے تھے، اس کے جسم پر دہکتے ہوئے انگارے رکھ دیجیے اور کہیے کہ تمہارا جسم قطعی طور پر جلنے سے محفوظ ہے، پھر دیکھیے، وہ واقعی محفوظ رہے گا۔اس کے برخلاف یہ سجیشن دیجیے کہ میں تمہارے سر پر ہتھوڑا مار رہا ہوں جس سے تم سخت اذیت محسوس کروگے اور پھر صرف انگلی سے ہلکی سی ضرب اس کی پیشانی پر لگائیے، وہ چیخ اٹھے گا، تکلیف سے تڑپے گا جیسے کہ واقعی اس کا سر پھٹ گیا ہو۔
ایسے تجربات اور مشاہدات کی کوئی کمی نہیں، جب کسی انسان پر تنویمی نیند طاری کردی گئی یا خود بہ خود (سیلف ہپناٹزم کے ذریعے طاری ہوگئی) اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ساکت یا شل ہوگیا، جسم اکڑ کر پتھر کی طرح سخت ہوگیا۔
 پولینڈ کے غیر آباد علاقوں میں ایک ایسی قوم کا سراغ بعض سائنس دانوں نے لگایا تھا جو خطرہ محسوس کرتے ہی خود پر تنویمی نیند طاری کرکے مردہ بن جاتے تھے۔ حد یہ کہ ان کی نبض اور دل کی دھڑکن تک رک جاتی تھی اور خطرہ ٹل جانے کی صورت میں وہ ایک خود کار طریقے سے اپنی اصل حالت میں واپس آجاتے، ماضی میں ہندو جوگیوں اور سادھوو ¿ں کے بھی ایسے واقعات ملتے ہیں اور صوفیائے اسلام کے کشف و کرامات میں بھی ایسے محیر العقول واقعات کی کمی نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم ایسے واقعات و کرامات کو منجانب اللہ تصور کرتے ہوئے ان کی سائنٹفک توجیہہ اور تحقیق کے چکر میں نہیں پڑتے کیوں کہ عقیدت و ایمان کے مسائل درمیان میں حائل ہوتے ہیں، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ صوفیائے کرام کی روحانی طاقتوں کی پشت پر توفیق و اجازت الٰہی کے ساتھ ان کی طویل روحانی تربیت و ریاضت بھی کارفرما ہے جس کے تحت وہ حبسِ دم (سانس کی مشق) ذکر و فکر الٰہی کی تکرار و تسلسل (مراقبہ) وغیرہ کے مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں، الغرض یہ ساری صورتیں اور مظاہر، انسان کی جسمانی قوت کا اظہار نہیں ہیں، ذہنی قوت کا اظہار ہیں جسے آپ روح کے کنٹرول میں سمجھتے ہوئے روحانی قوت کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم نے اوپر عمل تنویمی کے ان اثرات کی نشان دہی کی ہے جو انسانی جسم پر پڑسکتے ہیں اور اس میں غیر معمولی قوتیں یا صلاحیتیں بے دار کردیتے ہیں، اب آئیے ذہن کی طرف۔
 تنویمی کیفیت میں معمول، عامل کے اشارے پر غیر معمولی کیفیات کا مظاہرہ کرتا ہے،اس قسم کا ایک مظاہرہ ملاحظہ کیجیے، معمول کو تنویمی نیند کے عالم میں حکم دیا گیا کہ تم یہ محسوس کرو کہ میں اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں، وہ اس حکم یا ترغیب کو کئی بار دہراتا گیا، آخر معمول نے اقرار کیا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہے، عامل یہی فقہر دہرائے جارہا تھا کہ تم محسوس کرو کہ میں اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں، باہر نکل گیا ہوں۔
پانچ سات منٹ کے بعد معمول نے اطلاع دی کہ میں اپنے جسم سے باہر آگیا ہوں اور یہ میرے سامنے صوفے پر میرا جسم پڑا ہے، معمول سے سوال کیا گیا کہ تم اس حالت میں یعنی جسم سے باہر آکر کیا کیفیت محسوس کر رہے؟ اس نے کہا بالکل ہلکا پھلکا جیسے میرے اندر وزن ہی نہیں ہے جیسے میں ہوا کی طرح لطیف ہوں، اس کے بعد عامل نے کہا کہ تم برق رفتاری کے ساتھ لاہور چلے جاو ¿، چلے گئے؟ جواب ملا ”جی ہاں! میں چشم زون میں لاہور پہنچ گیا اور اب میں گلی نمبر فلاں اور فلاں محلے سے گزر رہا ہوں اور فلاں صاحب کا مکان میرے سامنے ہے“
عامل نے کہا ”مکان کے اندر داخل ہوجاو ¿ اور تفصیل کے ساتھ بتاو ¿ کہ فلاں صاحب اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ ان کی بیوی کہاں ہے؟ بڑی بچی کہاں ہے اور جو ان کے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟“
معمول نے کہا، فلاں صاحب باتھ روم میں ہیں، بھابی شاپنگ کے لیے گئی ہوئی ہیں، بڑی بچی کو بخار ہے اور مہمان چلے گئے ہیں، جب معمول یہ تفصیل بیان کرچکا تو اسے حکم دیا گیا کہ اب واپس آجاو ¿، آگئے واپس؟ جواب ملا ”جی ہاں، آگیا“ کہا گیا کہ اب اپنے جسم میں داخل ہوجاو ¿، ”داخل ہوگیا“ جواب ملا۔
اس کے بعد سجیشنز کے ذریعے معمول کی نیند ختم کردی گئی، چند لمحے بعد معمول بالکل ہوش و حواس میں تھا، فوراً ہی لاہور ٹیلی فون کرکے مذکورہ گھر سے معلومات حاصل کی گئیں اور پوچھا گیا کہ کیا آپ چند لمحے پہلے غسل خانے میں تھے؟ کیا بھابھی خریداری کے لیے بازار گئی ہیں؟ کیا بڑی بچی کو بخار ہے؟ کیا آپ کے مہمان چلے گئے؟ انہوں نے ایک ایک بات کی تصدیق کی اور حیرت کا اظہار کیا کہ یہ ساری باتیں آپ کو کیسے معلوم ہوئیں، کیا اس واقعے سے اندازہ نہیں ہوتا کہ نفس انسانی کتنے عجائبات کا ذخیرہ ہے اور ایسی کسی صورت کو جو کسی عامل یعنی ماہر ہپناٹسٹ کی تخلیق کردہ ہو یا کسی سیلف ہپناٹزم کے ماہر نے خود تخلیق کی ہو، اسے کسی ماورائی جناتی صورت حال سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی؟ یقیناً دی جاسکتی ہے اور اکثر دی جاتی ہے۔
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق جن گرفتہ یا جن زدہ افراد کی اکثریت مالی خولیا، ہسٹیریا اور شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی امراض کا شکار ہوتی ہے،صرف ایک فیصد کیس حقیقی طور پر جناتی ہوتے ہیں اور ان ایک فیصد میں بھی زیادہ تعداد ایسی ہوتی ہے جو ظاہر نہیں ہوتی،جنات عام طور پر انسانوں سے اپنے روابط کو خفیہ رکھنا پسند کرتے ہیں، خصوصاً جب وہ کسی کو پسند کریں یعنی عاشق ہوجائیں، باقی شریر اور ایذا پہنچانے والے جنات شدید نوعیت کی تکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک حقیقی جن گرفتہ کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے کہ ہم اسے حقیقی جنات کا کیس تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں، یہ کیس ہم مرحوم جناب رئیس امروہی کے خطوط سے نقل کر رہے ہیں۔
رئیس صاحب کو اس کی اطلاع سرگودھا کے ایک ڈاکٹر مسعود چشتی نے دی تھی، وہ لکھتے ہیں۔
”ایک نوجوان لڑکی کو ہر سال ایک سانپ مقررہ تاریخ یعنی 29 اگست کو ڈستا ہے، اس سے پہلے تین چار سانپ مارے جاچکے ہیں مگر ڈسنے والے سانپ کا پتا نہیں چلتا، خط و کتابت کے بعد آپ کے مشورے سے لڑکی کو چراغوں کے سامنے بٹھایا گیا، دیے روشن کیے گئے اور جن گرفتہ مریضہ کو سرخ کپڑے پہنا کر چراغاں کے سامنے بٹھایا گیا، لڑکی سے کہا گیا کہ وہ چراغ پر پلک جھپکائے بغیر نظریں جمائے، اس کے بعد سورة جن کی تلاوت شروع کی گئی، جب سورئہ جن کی تلاوت دوسری بار کی جارہی تھی تو لڑکی پٹخنی کھاکر زمین پر گر پڑی جیسے کسی نادیدہ ہاتھ نے اسے زمین پر دے پٹکا ہے، لڑکی نے اس حیران کن حالات میں اعلان کیا کہ میرا نام ”اکبر شاہ جن“ ہے اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے خدام میں شامل ہوں۔
 جن سے کہا گیا کہ وہ لڑکی کو پراسرار سانپ کے ڈسنے سے نجات دلادے لیکن کوئی تشفی بخش جواب نہ ملا، اب اس جن گرفتہ لڑکی کی حرکات ملاحظہ کیجیے۔پورا گھڑا جس میں چھ سات سیر پانی تھا غٹاگٹ چڑھا گئی، چائے کی چھ پیالیوں والی کیتلی کی ٹونٹی منہ سے لگاکر گرم گرم پانی پی گئی، دورے کی حالت میں مریضہ چھلانگیں لگاتی ہے، شور مچاتی ہے، اکبر شاہ جن نے جو مریضہ پر مسلط ہے ہمارے دوست محمد اقبال سے مطالبہ کیا کہ پانچ سو روپے لاو ¿، لڑکی کو بتائے بغیر ایک شخص کو بھیجا گیا کہ عامل (جن اتارنے والے) کو بلا لائے، لڑکی نے چیخ چیخ کر کہاکہ عامل کو بلانے کی ضرورت نہیں، کوئی فائدہ نہ ہوگا، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
 ڈاکٹر اس دورے کو ہسٹیریا کا دورہ قرار دیتے ہیں، چناں چہ ایک شخص کو چپکے سے برومائڈ(ہسٹیریا کی دوا) لانے کو کہا گیا، لڑکی بول پڑی ”میں ہسٹیریا کی مریضہ نہیں ہوں، برومائڈ سے کیا ہوگا؟ مریضہ کو بتائے بغیر چپکے سے سادہ پانی میں برومائڈ ملاکردیا گیا، لڑکی نے تھپڑ مار کر اس گلاس کو توڑ دیا کہ مجھے سادہ پانی میں برومائڈ ملاکر پلاتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟
ڈاکٹر مسعود چشتی رقم طراز ہیں کہ آپ کو ان حالات سے مطلع کیا گیا تو آپ نے ہدایت دی کہ فلاں سورئہ پانی پر دم کرکے مریضہ کو پلاو ¿، اس ہدایت پر عمل کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، اس علاقے میں جتنے عامل رہتے تھے سب کو بلایا گیا اور آزمایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، پیر سیال شریف اور دوسرے بزرگوں نے اکبر شاہ جن پر قابو پانے کی اور اسے بھگانے کی تدبیریں کیں لیکن وہ اب تک اس لڑکی پر مسلط ہے، مریضہ اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ پہچاننا مشکل ہے، اس کے بعد کے واقعات بے حد غم انگیز ہیں اور دردناک بھی۔
جن گرفتہ مریضہ کا گھر بالکل تباہ ہوچکا ہے، جن کے جنون میں مبتلا ہوکر اس نے چارپائیاں توڑ ڈالیں، ماں بہنوں کی زبردست بے حرمتی کی ، چھلانگ لگاکر چھت پر چڑھ گئی اور پھر چھلانگ لگاکر چارپائی پر کودی اور اسے توڑدیا، مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ جن گرفتہ لڑکی جس گھر میں جاتی ہے وہاں تباہی مچ جاتی ہے، مثلاً محمد حسین دودھ والے کے گھر جانا آنا شروع کیا تو وہ ڈاکا زنی کے شبہے میں پکڑ اگیا، تلاشی پر اس کے گھر سے مال مسروقہ برآمد نہیں ہوا تاہم جیل کی ہوا کھارہا ہے، محمد حسین کی بیوی پر فالج گرگیا، منجھلے لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی، خود ڈاکٹر مسعود چشتی جنہوں نے لڑکی کے علاج معالجے میں کافی دلچسپی لی تھی، اکبر شاہ جن کی ہلاکت انگیزی سے نہ بچ سکے، ان کی صحت مند گریجویٹ بیوی وفات پاگئیں، ملکیتی مکان چھوڑنا پڑا، اب کرائے کے مکان میں سکونت ہے،پہلے کلینک خوب چل رہا تھا، اب الّوبول رہے ہیں، اکبر شاہ جن کا کہنا تھا کہ وہ جنوں کے ڈھائی لاکھ جنوں پر مشتمل قبیلے کا سردار ہے، یہ وہ قبیلہ ہے جو حضرت سید علی حجویریؒ کے دستِ مبارک پر اسلام لایا، اکبر شاہ جن کے قبیلے کے افراد خود عمل ، وظیفے اور ذکروافکار میں مشغول رہتے ہیں لہٰذا ان پر معمولی عملیات اثر انداز نہیں ہوتے“۔
یہ وہ مقام ہے جہاں عقل دنگ رہ جائے اور سائنس و میڈیکل یا نفسیات کی ساری موشگافیاں بغلیں جھانکنے لگیں، انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ معاملات اور صورت احوال ماورائے عقل و شعور ہیں، اس پردئہ نگاری کے پیچھے یقیناً کوئی معشوقہءعجیبہ و نادیدہ جلوہ فرما ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں